اسلام آباد پولیس نے شکرپڑیاں میں غیر ملکی خواتین کو ہراساں کرنے والے چار ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔
پاکستان کے 75 ویں جشنِ آزادی کے موقع پر شکرپڑیاں کے ایک پارک میں دو غیر ملکی خواتین کو ہراساں کرنے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں خواتین کو پریشانی کے عالم میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد اسلام آباد پولیس سے ملزمان کے گرفتاری کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔
پولیس نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو کےبعد سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کرتے ہوئے منگل کو چار ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے بھی ایک ٹویٹ میں بتایا ہے کہ شکر پڑیاں میں غیر ملکی خواتین کو ہراساں کرنے والے چار مرکزی ملزمان کو گرفتار کیا ہے جن کی شناخت سجاد احمد، عدیل کریم، ریاض خان اور ذاکر اللہ سے ہوئی ہے۔
پولیس کا مزید کہنا ہے کہ ملزمان کا تعلق ٹیکسلا سے ہے جن کے قبضے سے ویڈیوز بھی برآمد کی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ ملزمان پر الزام ہے کہ وہ شکرپڑیاں پارک میں ٹک ٹاک ویڈیوز بنا رہے تھے اور اس دوران انہوں نے غیر ملکی خواتین کو ہراساں بھی کیا۔
پولیس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وہ ملزمان سے تفتیش کر رہی ہے۔
'خواتین کا بیان اہمیت کا حامل ہے'
اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی جواد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں متاثرہ خواتین کا بیان اہمیت کا حامل ہے تاہم اب تک خواتین کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔
ان کے بقول متاثرہ خواتین نے اب تک پولیس سے رجوع نہیں کیا لیکن واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے اپنے سب انسپکٹر کی مدعیت میں ہی مقدمہ درج کیا ہے۔
تقی جواد نے بتایا کہ گرفتار چار ملزمان میں سے ایک شخص سجاد ٹک ٹاکر ہے اور اس کے 16 ہزار کے قریب فالورز ہیں، پارک میں موجود مونومنٹ پر اس نوجوان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ غیر ملکی خواتین کے قریب ہو کر سیلفی لینے اور ویڈیو بنانے کی کوشش کی جس کے بعد وہاں موجود دیگر اوباش نوجوان بھی ان کے قریب جمع ہوگئے اور پھر یہ واقعہ پیش آیا۔
سیکیورٹی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد پولیس موقع پر موجود تھی لیکن وہاں متاثرہ خواتین کے اپنے ذاتی محافظ بھی موجود تھے اور انہوں نے ہی خواتین کو وہاں سے ریسکیو کیا۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا گرفتار چاروں ملزمان سے تفتیش کا سلسلہ جاری ہے۔ واقعے کے مقام کی ویڈیوز نادرا کو بھیجی ہیں تاکہ واقعے میں ملوث دیگر ملزمان کو بھی گرفتار کیا جائے۔
انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ آئندہ ایک سے دو روز میں مزید افراد کے بارے میں تفصیلات سامنے آجائیں گی۔
شکر پڑیاں پارک میں اس واقعے سے متعلق نیشنل پریس کلب کے سابق صدر اور کرائم رپورٹر شکیل قرار کہتے ہیں عام طورپر شکرپڑیاں اور مونومنٹ پر پولیس سیکیورٹی بہت کم تعداد میں ہوتی ہے، کسی قومی دن کے موقع پر ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔
ان کے بقول 14 اگست کو پولیس نے مونومنٹ پر ایک میوزیکل شو کا انتظام کررکھا تھا جس میں اسلام آباد پولیس سمیت مختلف صوبوں کی پولیس بینڈ نے پرفارم کرنا تھا لیکن 13 اگست کو اس پروگرام میں تبدیلی کی اور یہ تقریب ایف نائن پارک منتقل کردی تھی جس کے بعد شکر پڑیاں پارک میں موجود تقریباً تمام سیکیورٹی ہٹا لی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات میں عام طور پر دوسرے شہروں سے آنے والے منچلے نوجوان ملوث ہوتے ہیں اور اس واقعے میں بھی گرفتار ملزمان کا تعلق ٹیکسلا سے ہے۔
شکیل قرار کہتے ہیں اسلام آباد میں سیر و تفریح کی غرض سے نکلنے والے غیرملکیوں کو پولیس کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ وہ این او سی لینے کے بعد کھلے مقامات پر گھومیں لیکن 14 اگست کو متاثرہ خواتین نے کوئی این او سی نہیں لیا تھا۔ تاہم ایک عام تفریحی مقام پرایسا واقعہ پیش آنا ملک کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔