پاکستانی سفیر کی کانفرنس ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب پاکستان کوسفارتی محاذ پر دہشت گرد گروپس کو اپنی سرزمین پر ٹھکانے بنانے کی اجازت دینے یا ان کے خلاف کارروائی نہ کرنے جیسے الزامات کا سامنا ہے۔
اور اب حال ہی میں ابھر تی ہوئی پانچ معیشتوں کی تنظیم برکس کے اعلامیے میں جن عسکری گروپس کو خطرہ قرار دیا گیا ہے ان میں سے کم از کم چار تنظیمیں ایسی ہیں جن کی پاکستان میں موجودگی کی جانب اشارہ کیا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ اردو سروس کے پروگرام جہاں رنگ میں پاکستانی سفیروں کی کانفرنس کی موجودہ صورت حال میں اہمیت پر مذاکرہ ہوا۔
سابق سفارت کار، مشتاق احمد میر نے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی بری طرح ناکام ہو چکی ہے، انٹر نیشنل ریلیشن کا نیٹ ورک بوسیدہ ہو چکا ہے، خطے میں کئی مشکلات کا سامنا ہے، اور سب سے بڑھ کر 1971 کے بعد پاکستان پہلی دفعہ سفارتی سطح پر الگ تھلگ ہو چکا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ خار جہ پالیسی کی نظرثانی کی جائے ۔
امریکی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں موجود سفارت کار خارجہ پالیسی کو پھر سے تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن بقول ان کے اس کا انحصار اس پر ہو گا کہ پاکستان کی عسکری اور سویلین قیادت سفارت کاروں کے مشوروں پر کہاں تک عمل کرتے ہیں۔
مزید تفصیلات کے لئے اس لنک پر کلک کریں۔