امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگون نے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان اور خطے میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی سے ہمیشہ کی طرح باخبر ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے فضائی کارروائی کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ہفتہ وار بریفنگ کے دوران پینٹاگون کے پریس سیکریٹری ایئر فورس بریگیڈیر جنرل پیٹ رائیڈر نے پاکستان کی جانب سے افغانستان میں انتہا پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے مؤقف سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا، "ہم جانتے ہیں کہ افغانستان اور پورے خطے میں دہشت گردتنظیمیں موجود ہیں۔ اور یہ یقینی طور پر امریکہ کے نکتہ نظر سے کسی کے لیے بھی حیران کن بات نہیں ہے کیوں کہ ہم یہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے افغانستان میں امریکہ کے پاس فضائی کارروائی کی صلاحیت موجود ہے اور امریکہ اپنے دفاع کے لیے " اوو ردا ہوریزن آپریشن" (Over-The-Horizon Operation) یعنی ریاست کے باہر سے کیا جانے والا آپریشن، برقرار رکھے گا۔
یاد رہے کہ صدر جو بائیڈن نے گزشتہ برس اگست کے اوائل میں ایک خطاب میں مطلع کیا تھا کہ امریکہ نے القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو ایک ڈرون حملے میں افغانستان میں ہلاک کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا القاعدہ کے رہنما اپنے خاندان کے ساتھ کابل میں رہائش پذیر تھے۔
افغانستان کی طالبان حکومت اور بعض ناقدین ان خیالات کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ یہ حملہ پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
طالبان کے دفاعی وزیر محمد یعقوب نے اس وقت اپنے ردِعمل میں کہا تھا کہ پاکستان نے اس ڈرون حملے کے لیے اپنی فضائی حدود امریکہ کو استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔ تاہم پاکستان نے ایسے الزامات کی تردید کی تھی۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے گزشتہ ہفتے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے حملوں کے پس منظر میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
کیا امریکہ افغانستان میں فوجی کارروائی کر سکتا ہے؟
مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان اور امریکہ اب ایک ساتھ مل کر اگر دہشت گردوں کے خلاف باضابطہ کارروائی کریں گے بھی تو اس کا اعلان نہیں کیا جائے گا۔
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں انٹر نیشنل ریلیشنز کے پروفیسر ڈاکٹر حسن عباس نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئےکہا کہ سال 2007 سے لے کر 2014 تک انتہا پسندد گروہوں نےپاکستان پر اس مؤقف کے ساتھ حملے کیے کہ پاکستان افغانستان میں امریکہ کے اتحادی کے طور پر کام کر رہا ہے۔
ان کے خیال میں پاکستان اور امریکہ اب عوامی طور پر یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ دونوں ملک مل کر خطے میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں ۔یہ نہ تو پاکستان کے مفاد میں جاتا ہے اور نہ ہی امریکہ کے مفاد میں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سال 2018 کے بعد سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں ماضی کی طرح کی گرم جوشی نہیں رہی تھی۔ بظاہر اب تعلقات کسی حد تک سردمہری سے باہر تو آئے ہیں لیکن اب بھی پاکستان کو سیکیورٹی کی مد میں دی جانے والی امریکی امداد مشروط ہے۔
امریکہ نے حال ہی میں پاکستان کے لیے افغانستان کے ساتھ سرحد پر سیکیورٹی کی صورتِ حال کی بہتری کے لیے سال 2023 کے اپنے بجٹ میں پندرہ ملین ڈالر کی مالی مدد کا اعلان کیا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حسن عباس کے بقول، "اس وقت دہشت گردی کے خلاف دونوں ملکوں کی جانب سے کوئی واضح اور منظم پالیسی نظر نہیں آتی۔لیکن داعش دونوں ملکوں کے لیے ایک مشترکہ دشمن ضرور ہے۔"
گزشتہ ہفتےامریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پاکستان کے صوبوں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے حملوں کے پس منظر میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔