رائے عامہ کے ایک سروے کے مطابق امریکی شہریوں کی بڑی تعداد نے اپنے ڈاکٹرز، نرسز اور دواسازوں پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اس تحقیق پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ شہریوں کا اپنے معالجوں پر یہ اعتبار انہیں ویکسین لگوانے کی ترغیب دینے کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف شکاگو کے ہیرس اسکول آف پبلک پالیسی اور ایسوسی ایٹڈ پریس-این او آر سی سینٹر آف پبلک افئیرز ریسرچ کی جانب سے کئے گئے رائے عامہ کے ایک سروے کے مطابق ہر دس میں سے سات شہریوں کا یہ کہنا ہے کہ ان کے ڈاکٹرز، نرسز اور دوا ساز انہیں بہترین خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جب تک شہری اپنے معالجوں پر اعتبار کرتے ہوئے ان کی بات سننے کے لئے تیار ہیں انہیں کرونا ویکسین لگوانے کے لئے آمادہ کیا جا سکتا ہے۔
رائے عامہ کے اس سروے میں یہ دیکھا گیا کہ طبی نظام پر اعتبار کی یہ شرح امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں کے حامیوں، سفید فام، سیاہ فام اور ہسپانوی نژاد سب ہی شہریوں میں یکساں پائی گئی۔
این او آر سی کے ہیلتھ ریسرچ گروپ کی سینئر نائب صدر مشیل سٹرولو کہتی ہیں کہ لوگ جب ڈاکٹرز اور نرسز کے پاس جاتے ہیں تو اعتبار اور اعتماد کا ایک رشتہ قائم ہوتا ہے، اور پھر وہ اپنے طبی مسائل اور سوالات لیکر انہی کے پاس بار بار جاتے ہیں۔ سٹرولو کہتی ہیں " صحت عامہ کے حکام کو ویکسین لگوانے کی ترغیب دینے کے لئے معالجین، نرسز اور فارماسسٹس سے ہی رابطہ کرنا چاہئے جن کا مریضوں کے ساتھ پہلے سے اعتماد کا رشتہ موجود ہے".
اس سے پہلے جون کے مہینے میں ہونے والے ایک سروے میں بھی یہ دیکھا گیا تھا کہ لوگ متعدی امراض کے ادارے سی ڈی سی اور امریکہ میں وبائی امراض کے بڑے ماہر ڈاکٹر اینتھونی فاؤچی کی تجاویز کی بجائے اپنے ذاتی معالج کی رائے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
یہ تحقیق ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکہ بھر میں کرونا کیسز کی تعداد ایک بار پھر بڑھ رہی ہے، جس کی بڑی وجہ تیزی سے پھیلنے والا ڈیلٹا ویرئینٹ ہے۔ اس بار وبا کی لپیٹ میں آنے والوں کی بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی۔
امریکی صدر جو بائیڈن سمیت کئی اعلیٰ امریکی حکام لوگوں سے کرونا سےبچاؤ کی ویکسین لگوانے کی درخواست کر چکے ہیں۔
کرونا سے بچاؤ کی ویکسین اس سال کی پہلی سہ ماہی کے بعد سے امریکہ بھر میں عام دستیاب ہے۔ امریکہ میں امراض کی روک تھام کے ادارے سینٹر فار ڈیزیزز کنٹرول کے مطابق 71 فیصد بالغ شہریوں کو ویکسین کی کم از کم ایک خوراک مل چکی ہے۔
حال ہی میں ریٹائر ہونے والے کارڈیالوجسٹ پال ویکٹس کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پاس آنے والے بہت سے مریضوں کو ان کی صحت کے بارے میں سمجھاتے ہوئے ویکسین لگوانے کی ترغیب دی جسے ان کے خیال میں ان کے مریضوں نے اہمیت بھی دی۔
الینوئے سے تعلق رکھنے والے ویکٹس بتاتے ہیں ' بطور ڈاکٹر میرے مریض مجھے جانتے ہیں، میری نظر سے نظر ملا کر بات کرتے ہیں اور انہیں مجھ پر یہ اعتبار ہے کہ میں انہیں غلط مشورہ نہیں دوں گا'.
دوسری جانب رائے عامہ اور سروے ریسرچ کی ڈائریکٹر لز ہیمل کہتی ہیں کہ معالجین شہریوں کو ویکسین لگوانے کی ترغیب دینے میں بالکل مددگار ثابت ہو سکتے ہیں مگر امریکہ کا صحت کا نظام منقسم ہے اور یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا ہے ایسے لوگوں میں ویکسین لگوانے کی شرح جن کے پاس صحت کی انشورنس نہیں ہے، سب سے کم ہے اور اسی وجہ سے ان لوگوں کے پاس معالجین تک رسائی بھی نہیں ہوتی۔
ویکسین لگوانے کی شرح کم عمر بالغ شہریوں میں بھی کم نظر آتی ہے اور یہاں بھی یہی وجہ نظر آتی ہے کہ کم عمر بالغوں کا معالجین کے پاس جانا کم ہی ہوتا ہے۔
لز ہیمل اس مسئلے پر مزید گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ معالج یا دوا ساز تک پہنچا دینے سے شہری ویکسین لگوانے کو تیار ہوجائیں گے۔
وہ کہتی ہیں ویکسین کو سیاسی طور پر اتنا متنازعہ بنا دیا گیا ہے کہ وہی لوگ جو اپنی صحت کے مسائل پر اپنے معالج کی رائے پر اعتبار کرتے ہیں ویکسین لگوانے کے معاملے پر کان بھی دھرنا نہیں چاہتے۔ ہیمل کہتی ہیں لوگ سیاسی طور پر اتنے تقسیم ہو چکے ہیں کہ ویکسین مخالف طبقہ اس بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا۔
(اس مضمون میں شامل معلومات خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں)