اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے پاکستانی فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل امجد شعیب کو بغاوت کے مقدمے سے ڈسچارج کر دیا ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سپرا نے امجد شعیب کے جسمانی ریمانڈ پر نظرِ ثانی اپیل پر محفوظ فیصلہ سنایا ہے۔ ان پر ایک ٹی وی پروگرام کے دوران حکومت مخالف تجزیہ دینے اور لوگوں کو اداروں کے خلاف اکسانے کا الزام تھا۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ امجد شعیب کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے گٗے۔
عدالت نے سابق فوجی افسر کو مقدمے سے ڈسچارج کرتے ہوئے مقدمہ خارج کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب امجد شعیب کو ان کی رہائش گاہ سےحراست میں لیا تھا جن کے خلاف مجسٹریٹ اویس خان کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا۔
اس مقدمے میں عدالت نے امجد شعیب کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے بھی کیا تھا۔ امجد شعیب کی سلاخوں کے پیچھے ایک تصویر بھی سامنے آئی تھی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔
امجد شعیب نے عدالت کے روبرو مؤقف اختیار کیا تھا کہ ٹی وی پروگرام میں وہ اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں جس پر کبھی کسی حکومت نے عمل نہیں کیا۔
امجد شعیب کے وکیل نے عدالت کے روبرو مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کے موکل نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس پر اس طرح کا مقدمہ بنایا جائے اس لیے عدالت امجد شعیب کو مقدمے سے ڈسچارج کرے۔
مقدمے کے درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ 25 فروری کو مقامی ٹیلی ویژن ’بول ٹی وی‘ پر ایک شو کے دوران امجد شعیب نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ "ایسی حکمتِ عملی بنائی جائے جس میں اپیل کی جائے کہ اسلام آباد میں سرکاری دفتروں میں کوئی نہیں جائے گا، اگر اس کال پر لوگ نہیں جاتے تو حکومت سوچنے پر مجبور ہو گی۔"
درخواست گزار نے الزام عائد کیا تھا کہ اس بیان اور تجزیے کے ذریعے امجد شعیب نے سرکاری ملازمین اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو قانونی و سرکاری فرائض کی انجام دہی سے روکنے کے لیے اکسایا تھا۔