رسائی کے لنکس

کلمہ چوک ری ماڈلنگ، کیا لاہور کا نقشہ بدلنے والا ہے؟


کلمہ انڈر پاس ابھی مکمل نہیں ہوا البتہ اسے ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
کلمہ انڈر پاس ابھی مکمل نہیں ہوا البتہ اسے ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں واقع کلمہ چوک پر بنایا گیا انڈر پاس برکت مارکیٹ سے سینٹر پوائنٹ تک کھول دیا گیا ہے۔ کام تو تاحال مکمل نہیں ہوا لیکن حکام کے مطابق پی ایس ایل میچز سے قبل اس راستے کو فعال کرنا ٹریفک کو رواں رکھنے کے لیے ضروری تھا۔

پنجاب کی سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ اتھارٹی (سی بی ڈی) نے نومبر 2022 میں کلمہ انڈر پاس سے ملحقہ سڑک پر تعمیراتی کام کا آغاز کیا تھا۔ کلمہ چوک ری ماڈلنگ منصوبے کے تحت کلمہ انڈر پاس میں مزید ایک لین کا اضافہ کیا جا رہا ہےجب کہ اس انڈر پاس کو مزید 400 میٹر تک توسیع دی جائے گی، جس کا مقصد سی بی ڈی بلیوارڈ اور فردوس مارکیٹ کو جانے والی علی زیب روڈ کو سگنل فری بنانا ہے۔

اس راستے سے گزرنے والے شہری حسن عبداللہ کہتے ہیں کہ یہ سڑک ان کے گھر سے دفتر جانے کا ایک سیدھا اور آسان راستہ ہے لیکن جب سے اس انڈر پاس کی تعمیر شروع ہوئی ہے تو متبادل راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔

حسن عبد اللہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اُنہیں یہ سن کر خوشی ہوئی کہ برکت مارکیٹ سے سینٹر پوائنٹ تک انڈر پاس کا کام مکمل ہوگیا ہے البتہ جب وہ یہاں سے گزرے تو اُنہیں معلوم ہوا کہ انڈر پاس عام ٹریفک کے لیے کھول تو دیا گیا ہے لیکن مکمل طور پر تعمیر نہیں ہوا۔

وہ کہتے ہیں کہ عام حالات میں تو یہاں ٹریفک کا بہاؤ بہت زیادہ نہیں ہوتا لیکن پی ایس ایل میچز لاہور میں ہو رہے ہیں تو کرکٹ ٹیموں کی گراؤنڈ آمد و رفت کے وقت انڈر پاس میں بھی ٹریفک میں خلل پڑتا ہے جب کہ لوگ گاڑیاں واپس موڑ کر ون وے میں ہی آنے لگتے ہیں، جس سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔

سی بی ڈی بلیوارڈ ہے کیا؟

کلمہ انڈر پاس سی بی ڈی کے تحت تعمیر ہو رہا ہے۔سی بی ڈی یعنی سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ لاہور کی تعمیر نو کا ایک منصوبہ ہے۔ سی بی ڈی بلیوارڈ وہ گیٹ وے ہے جہاں سے اس بزنس ڈسٹرکٹ تک جانے کا راستہ ہوگا۔

کلمہ چوک سے لبرٹی اور فردوس مارکیٹ جانے والوں کو پہلے اپنے دائیں طرف سروس لین پر پھولوں کی نرسریاں دکھائی دیتی تھیں۔ اب جیسے جیسے ری ماڈلنگ کا یہ منصوبہ مکمل ہو رہا ہے تو یہ سڑک ایک الگ نظارہ دے رہی ہے۔

یہی سڑک مستقبل میں فیروز پور روڈ، گلبرگ، کینٹ اور گارڈن ٹاؤن سے آنے والوں کو بزنس ڈسٹرکٹ تک سگنل فری رسائی دے گی۔

سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ اتھارٹی (سی بی ڈی) کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او)عمران امین کہتے ہیں کہ کلمہ انڈر پاس ری ماڈلنگ سی بی ڈی بلیوارڈ سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کے تحت جاری مختلف منصوبوں کا ایک حصہ ہے۔ اس کے پیچھے خیال یہی تھا کہ بہت سے علاقوں میں حکومت کے ایسے اثاثے موجود ہیں، جو کسی استعمال میں نہیں ہیں یا کوئی فائدہ نہیں دے رہے، تو اُن مقامات کو دوبارہ استعمال میں لانا ایک مقصد ہے۔

منصوبے کے لیے زمین کی فراہمی

سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کے لیے اتھارٹی کو 72 ایکڑ یعنی 1600 سے 1800 کنال زمین حکومت کی طرف سے الاٹ کی گئی ہے۔ جو زمین اتھارٹی کو الاٹ ہوئی ہے وہاں پر لاہور کا قدیم والٹن ایئر پورٹ تھا۔

عمران امین کے مطابق والٹن ایئر پورٹ کو وفاقی حکومت غیر فعال کر چکی تھی اور اس سرکاری زمین کا کوئی استعمال نہیں تھا۔ صوبائی حکومت نے سوچا کہ اسے اربن ری جنریشن یعنی شہری تخلیق نو کے تصور پر آباد کیا جائے، لیکن ایک آزاد اتھارٹی کے زیرِ سایہ یہ کام ہو، جو سرمایہ کاری لا سکے اور اس کی تعمیر اسٹیٹ آف دی آرٹ ہو، تو اس طرح اس اتھارٹی کا قیام وجود میں آیا۔

انہوں نے بتایا کہ شروعات لاہور میں سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ اتھارٹی سے ہوئی البتہ اب اس کا دائرہ کار پورے پنجاب تک پھیلا دیا گیا ہے اور اس کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری ادارے کے ساتھ مل کر اُن کی غیر استعمال شُدہ زمین استعمال کر سکتی ہے۔ اس ابتدائی منصوبے میں سی بی ڈی بطور گورنمنٹ آف پنجاب ایک دوسرے ادارے سول ایوی ایشن (سی اےا ے) کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ اس مد میں حاصل ہونے والی رقم ریونیو شئیرنگ ماڈل کے تحت دونوں اداروں میں تقسیم ہو گی۔

اونچی عمارتوں کا شہر

لاہور کی تعمیر نو کے اس منصوبے کا آغاز گلبرگ مین بلیوارڈ نرسری ایریا سے کیا گیا، جس کی حد والٹن روڈ تک جائے گی۔

اس اطراف میں موجود ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے مکین شہباز سپرا کہتے ہیں کہ میرا گھر بالکل اس جگہ آباد ہے، جہاں سے پہلے والٹن ایئر پورٹ کےرن وے پر کمرشل جہاز اُڑان بھرتے دکھائی دیتے تھے۔ یہ نظارہ بھلا دکھائی دیتا تھا۔ کھلی تازہ ہوا بھی محسوس ہوتی تھی لیکن جب سے یہاں تعمیراتی کام کا آغاز ہوا ہے، ہم نے اس طرف کی کھڑکیاں بند کر دی ہیں کیوں کہ گرد وغبار اور شور اندر آتا ہے۔

ان کے مطابق یہاں اونچی اونچی عمارتوں والا شہر تعمیر ہونے کے بارے میں بتایا جا رہا ہے۔ اب ہمارے ذہن میں تو وہ پرانے نظارے ہی محفوظ ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ یہ جدید تعمیرات کیا نیا لاتی ہیں۔

سی بی ڈی اتھارٹی کے سی ای او عمران امین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہاں 100 سےزائد عمارتوں کا انفراسٹرکچر بننے جا رہا ہے۔ یہ پاکستان کا واحد انفراسٹرکچر ہو گا جو سپر ہائی ریز عمارتوں کی ضرورت کو مدِنظر رکھ کر بنایا جارہا ہے کیوں کہ گلبرگ میں قائم موجودہ عمارتوں میں گاڑیوں کی پارکنگ کا مسئلہ ہے تو یہاں اتنی جگہ موجود تھی کہ حکمتِ عملی کے تحت سڑکوں کی چوڑائی کا خیال رکھا جائے۔

ان کے بقول اتھارٹی نے لاہور کی ٹریفک کو دیکھتے ہوئے آئندہ 25 سے 30 برس کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہاں پانی، سیوریج اور نالوں کا نظام انہی اونچی عمارتوں کو دیکھتےہوئے بنایا گیا ہے۔ عمارتوں کی بناوٹ کو بھی اسی طرح مدِنظر رکھا جائےگا۔

منصوبے میں کیا کیا شامل ہے؟

اس منصوبے کو بنیادی طور پر چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جن کے حوالے سے عمران امین کہتے ہیں کہ اس منصوبے کے مکمل ہونے پر آپ گلبرگ اور والٹن کو کچھ اس طرز پر دیکھیں گے کہ مین بلیوارڈ کی مرکزی آٹھ سے 10 عمارتیں پرائم حیثیت کی ہوں گی، جن میں اپارٹمنٹس بھی ہوں گے اور دفاتر بھی، یعنی کمرشل اور رہائشی دونوں مقاصد کے لیے یہ عمارتیں استعمال ہوں گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جیسے آپ آگے بڑھیں گے، تو ڈاون ٹاؤن شروع ہوگا، جس میں ہوٹل ہوں گے اور وہ بزنس حب ہوگا تاکہ جو لوگ یہاں ملازمت کریں، اُنہیں رہائش کے لیے کہیں اور نہ جانا پڑے۔

ان کے مطابق تیسرا حصہ ریٹیل کا ہوگا اور عام لوگ بھی یہاں آکر شاپنگ کرسکیں گے البتہ یہ بین الاقوامی معیار کا شاپنگ ایریا ہوگا جب کہ آخری حصے میں بابِ پاکستان ہوگا، جسے تاریخی اور تفریحی مقام کی حیثیت حاصل ہوگی۔

سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کا فائدہ کس کو ہوگا؟

عمران امین کہتے ہیں کہ اس منصوبے کے دو فائدے ہوں گے، ایک تو یہ کہ حکومت کے پاس اضافی ریونیو کا ایک مستقل ذریعہ بن جائے گا جب کہ اسی مد میں آنے والی رقم سے اُس علاقے کا اربن انفراسٹرکچر بھی بحال ہوسکے گا۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ مین بلیوارڈ کو ری-ویمپ کرنے سے ٹریفک کا مسئلہ تو بہت حد تک حل ہو جائے گا۔ یہ صرف ایک انڈر پاس ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جو انٹرنل سروسز تھیں ان کے اداروں واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی، لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی، سیف سٹی اتھارٹی، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹڈ، سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کے ساتھ مل کر اُن کی سروسز کو بھی اپ گریڈ کیا ہے۔

مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کے پلان میں ایک ایریا ایسا بھی مختص کیا گیا ہے، جہاں ایسے سرکاری اداروں کو منتقل کرنے کا سوچا جا رہا ہے، جن کا فنڈ ریزنگ یا ریونیو جنریشن سے کوئی خاص تعلق نہیں۔

عمران امین کہتے ہیں کہ لاہور شہر میں پھیلے سرکاری دفاتر کو جب عمودی عمارتوں میں اُن کی ضرورت کے مطابق جگہ دے دی جائے گی تو اُن کے زیرِ استعمال پرانی عمارتوں کو بھی شہری تخلیق نو کے کام میں لایا جا سکے گا۔ جیسےاندرونِ شہر یا ڈیوس روڈ میں جتنے دفاتر ہیں، وہاں اسکول، اسپتال یا شاید کوئی پارک وغیرہ بنا دیے جائیں۔

منصوبہ مکمل کب ہوگا؟

اتھارٹی کو اُمید ہے کہ وہ 18 سے 20 ماہ میں سڑکوں اور علاقے کا تعمیراتی ڈھانچہ مکمل کرلے گی، جس کے لیے اُنہوں نے 28 سے 30 ارب روپے کا تخمینہ لگایا ہے البتہ اُس کے بعد جو مرحلہ آئے گا وہ سرمایہ کاروں کی جانب سے عمارتوں کی تعمیر ہوگی۔

عمران امین کہتے ہیں کہ بعض اوقات لوگ زمین تو لے لیتے ہیں لیکن پھر اُس پرتعمیرات کے بجائے اُس کے مہنگا ہونے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ زمین کو مہنگے داموں بیچ کر اُس سے منافع کمایا جاسکے لیکن اتھارٹی نے ایک خاص حکمتِ عملی کے تحت شروعاتی مرحلےمیں ہی زمین اتنی مہنگی فروخت کی ہے کہ آس پاس کی پراپرٹیز کا دور دور تک اُتنا مہنگا ہونے کا امکان نہیں ہے تو اُنہیں اپنا فائدہ واپس لینے کے لیے اُس زمین پر بلڈنگ بنانی ہی پڑے گی۔

یہاں کاروبار کا ارادہ رکھنے والوں کے لیے کاروباری قواعد و ضوابط میں نرمی برتی گئی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہاں سرمایہ کاری کی سہولت مل سکے۔

عمران امین کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ اُن کے پاس صرف مقامی سرمایہ کاری ہی نہیں آئی بلکہ پاکستانی نژاد ترک اور امریکی شہریوں نے بھی پہلی نیلامی میں حصہ لیا تھا۔

بعض ماہرین اس منصوبے کی تکمیل کے حوالے سے خدشات کا بھی شکار ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سی بی ڈی اتھارٹی نے زمین کی فروخت اور بین الاقوامی سرمایہ کاری سے ریونیو تو جمع کیا ہے لیکن کسی بھی منصوبے کی تکمیل کے لیے ملک کی معیشت کا بہتر ہونا بہت معنی رکھتا ہے کیوں کہ اگر ٹھیکیداروں کو عمارتوں کی تعمیر کے وقت مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا اور حکومت مستحکم نہ ہوئی تو اس کا اثر تو ملک کی ترقی کے ساتھ ایسے منصوبوں پر بھی پڑتا ہے۔

XS
SM
MD
LG