رسائی کے لنکس

اقوام متحدہ کا موثر کردار: کیا سلامتی کونسل میں اصلاحات ممکن ہیں؟


سلامتی کونسل فائل فوٹو
سلامتی کونسل فائل فوٹو

  • یوکرین اور غزہ میں جاری جنگوں کے تناظر میں بعض رہنما اور مبصرین اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے کردار پر تنقید کر رہے ہیں.
  • امریکہ نے گزشتہ ہفتے براعظم افریقہ کے لیے سلامتی کونسل میں دو مستقل ارکان کی نمائندگی کی حمایت کا اعلان، لیکن ویٹو دینے سے انکار کیا
  • جنوبی افریقہ کے صدر نے حمایت کا خیرمقدم کیا لیکن کہا کہ ویٹو کا حق دینے سے انکار انہیں "دوسرے درجے کا شہری" بنانا ہے۔
  • اقوام متحدہ کے 193 رکن ملک سلامتی کونسل میں اصلاحات کے ذریعہ نمائندگی کے معاملے پر برسہا برس سے منقسم ہیں۔
  • بھارت، برازیل، جاپان اور جرمنی نئے عالی تناظر کے روشنی میں مستقل بنیادوں پر سلامتی کونسل میں سیٹیں چاہتے ہیں۔
  • " اقوام متحدہ کے ارکان کی بڑی تعداد میں ترقی پذیر اور چھوٹے ملکوں کی متناسب نمائندگی سے ہی اس فیصلہ ساز ادارے کی اصلاح ہوگی۔ منیر اکرم

یوکرین اور غزہ میں جاری جنگوں کے تناظر میں جہاں بعض رہنما اور مبصرین اقوام متحدہ کے کردار پر تنقید کر رہے ہیں وہیں ان تنازعات نے 15 رکنی سلامی کونسل میں اصلاحات کی ضرورت کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے۔

امریکہ نے گزشتہ ہفتے براعظم افریقہ کے لیے سلامتی کونسل میں دو مستقل ارکان کی نمائندگی کی حمایت کا اعلان کیا۔

اگلے ہفتے نیویارک میں عالمی رہنماؤں کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے قبل اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ واشنگٹن افریقی ریاستوں کے لیے سلامتی کونسل کی دو مستقل نشستیں بنانے کی حمایت کرتا ہے۔

لیکن امریکہ کا کہنا تھا کہ انہیں کونسل کی قراردادوں پر وہ ویٹو پاور حاصل نہیں ہونی چاہیے، جیسی کہ موجودہ مستقل اراکان، برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکہ کو حاصل ہے۔

سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے چھوٹے جزیروں کی ترقی پذیر ریاستوں کے لیے اور ایک نشست کی حمایت کی جو کہ ان ملکوں کے درمیان "روٹیٹیشن" کے اصول پر گھومے گی۔

لیکن اقوام متحدہ کے 193 رکن ملک سلامتی کونسل میں اصلاحات کے ذریعہ نمائندگی کے معاملے پر برس ہا برس سے منقسم ہیں۔

تیزی سے اقتصادی ترقی کرنے والے ممالک بھارت، برازیل، جاپان اور جرمنی "جی فور" نام کے گروپ میں شامل ہیں۔ ان ملکوں کا کہنا ہے کہ نئے عالی تناظر کے روشنی میں ان کو مستقل بنیادوں پر سلامتی کونسل میں سیٹیں ملنی چاہیں۔

اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے براعظم افرقیہ سے سلامتی کونسل میں دو مستقل نمائندوں کی موجودگی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے براعظم افرقیہ سے سلامتی کونسل میں دو مستقل نمائندوں کی موجودگی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

دوسری طرف ترقی پذیر ملکوں کی زیادہ نمائندگی کا حامی گرو پ "یونائٹنگ فار کنسینس" یا "یو ایف سی" ہے جو عالمی ادارے کے اعلی ترین فورم کے مستقل ارکان کی تعداد میں اضافے کی مخالفت کرتے ہوئے ترقی پذیر ملکوں کی غیر مستقل نمائند گی پر زور دیتا ہے۔

ان متضاد تجاویز کی موجودگی میں پانچ مستقل ارکان امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس اور روس میں سلامتی کونسل کی ساخت اور اختیارات کے بارے میں تقسیم نظر آتی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوتریس اصلاحات کی حمایت کرتے ہیں۔

انہوں نے خبر رساں ادارے "رائٹرز" کو پچھلے ہفتے بتایا کہ اس وقت بھی سلامتی کونسل دوسری جنگ عظیم کے بعد کی صورتحال کے مطابق ہے۔

عالمی ادارے کے رہنما نے کہا کہ سلامتی کونسل کو "قانونی حیثیت کا مسئلہ درپیش ہے، اور اس کے موثر ہونے کا مسئلہ ہے، اور اس میں اصلاح کی ضرورت ہے"۔

ماہرین کے مطابق اس صورت حال میں سلامتی کونسل کو زیادہ موثر بنانے کی جانب اصلاحات کا عمل پیچیدہ بھی اورمتضاد آرا کی موجودگی میں ایک بڑا چیلنج بھی ہے۔

اقوام متحدہ میں امریکہ کے سابق سفیر جیمز بی کننگہیم کہتے ہیں کہ سلامتی کونسل میں اصلاحات لانے پر بحث مباحثے کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن موجودہ حالات نے اس مقصد کا حصول اور بھی مشکل بنادیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ بھارت اور جاپان کی مستقل رکنیت کی حمایت کرتا آیا ہے اور وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ براعظم افریقہ کو کم از کم ایک سیٹ لازمی طور پر ملنی چاہیے۔

اقوام متحدہ میں امریکہ کے سابق سفیر جیمز کننگ ہیم
اقوام متحدہ میں امریکہ کے سابق سفیر جیمز کننگ ہیم

جیمز کننگ ہیم، جو واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے نان ریذیڈنٹ سینئر فیلو ہیں، کہتے ہیں کہ تنازعات کے باعث سلامتی کونسل کا اپنے اصلاحات پر کام کرنا اور کسی بات پر متفق ہونا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔

"کیونکہ کونسل کے ایک رکن روس نے اپنے ہمسایہ ملک اور اقوام متحدہ کے آزاد ممبر ملک یوکرین کی خود مختاری پر ضرب لگاتے ہوئے اس پر حملہ کر رکھا ہے۔ ان حالات میں سلامتی کونسل کا کام کرنا دشوار ہے۔"

جی فور گروپ کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کو نئی جیو اسٹریٹیجک حقیقت کا عکاس ہونا چاہیے جس میں نئی اقتصادی طاقتوں کی مستقل رکنیت بہت اہم عنصر ہے۔

گروپ کا کہنا ہے کہ جو ملک دنیا کی معاشی ترقی میں بڑا حصہ ڈالتے ہیں ان کی اسی مناسبت سے اعلی ترین فیصلہ ساز فورم میں موجودگی بھی ہونی چاہیے۔

دوسری طرف یو ایف سی کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کی اصلاحات کا عمل جمہوری بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے۔

اس گروپ کے بانی سفارت کار اور پاکستان کے اقوام متحدہ میں سفیر منیر اکرم نے وائس آف امریکہ کو بتایا، "حقیقت تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ارکان کی بڑی تعداد ترقی پذیر اور چھوٹے ملکوں پر مشتمل ہے اور سلامتی کونسل میں ان کی متناسب نمائندگی ہی اقوام متحدہ کے فیصلہ ساز ادارے کی اصل اصلاح ہوگی کیونکہ اس کے ذریعہ غیر مستقل نمائندوں کے پاس مجموعی ویٹو کا حق ہوگا ۔"

اقوام متحدہ میں پاکسان کے سفیر منیر اکرم
اقوام متحدہ میں پاکسان کے سفیر منیر اکرم

اس گروپ کے بانی سفارت کار اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے وائس آف امریکہ کو بتایا، "حقیقت تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ارکان کی بڑی تعداد ترقی پذیر اور چھوٹے ملکوں پر مشتمل ہے اور سلامتی کونسل میں ان کی متناسب نمائندگی ہی اقوام متحدہ کے فیصلہ ساز ادارے کی اصل اصلاح ہوگی کیونکہ اس کے ذریعہ غیر مستقل نمائندوں کے پاس مجموعی ویٹو کا حق ہوگا ۔"

سفارت کار نے وضاحت کی کہ گروپ سمجھتا ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل نمائندوں کی تعداد بڑھانے کی بجائے غیر مستقل نمائندگی میں اضافہ ہونا چاہیے تاکہ اس اہم فورم پر ترقی پذیر اور چھوٹے ملکوں کی آواز بھی سنائی دے۔

مثال کے طورپر وہ کہتے ہیں کہ اگر سلامتی کونسل کی مجودہ تعداد کو 15 سے بڑھا کر12 غیر مستقل ارکان کے اضافے سے تعداد 27 کر دیا جائے تو کسی فیصلے کی توثیق کے لیے 15 یا 16 ووٹوں ک ضرورت ہو گی جو کہ ایک جمہوری اور اکثریتی رائے کا اظہار ہوگا۔

اصلاحات کا طریقہ کار پیچیدہ کیوں ہے؟

اقوام متحدہ کے امور کو گزشتہ تین دہائیوں سے قریب سے دیکھنے والے تجزیہ کار اور صحافی عبد ا لحمید صیام کہتے ہیں اصلاحات کے دو بڑے مراحل ہیں، ایک اتفاق رائے اور دوسرا ہر ممبر ملک سے اس متفقہ فیصلے کی توثیق۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا، "جب سے میں ان امور پر لکھ رہا ہوں میں نے دیکھا ہے کہ ہر کوئی باتیں کرتا ہے لیکن اس پر عملی پیش رفت بلکل نہیں ہوئی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے سب کو تشخیص کا پتہ ہے لیکن کوئی اس کا علاج نہیں کرتا"۔

عبدالحمید صیام، جومشرق وسطی، عرب اور مسلم دنیا کے امور پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ سلامتی کونسل میں اصلاحات لانے کا مطلب اس کے بنیادی چارٹر میں تبدیلی لانا ہے۔

اس میں سب سے پہلے توسفارتی کوششوں سے اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ دوسرا قدم پانچ مستقل نمائندوں سمیت جنرل اسمبلی کی بھاری اکثریت سے اصلاحات کی عملاً منظوری حاصل کرنا ہوگا۔ تیسرے مرحلے میں تمام ممبر ملکوں کے قانون ساز اداروں کو ان اصلاحات کی منظوری دینا ہوگی۔

""یہ ایک طویل طریقہ کارہے جس سے مراد یہ ہے کہ اصلاحات کا عمل مستقبل قریب کی بات نہیں ہے۔

اصلاحات پر اتفاق کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟

امریکہ کے سابق سفیر جیمز کننگ ہیم کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں سلامتی کونسل اس وقت ایسی پوزینش میں نہیں ہے کہ وہ کسی اہم مسئلے پر یکجا ہو سکے کیونکہ یوکرین میں روس کی جنگ جاری ہے اور روس اور چین دو ویٹو کا اختیار لینے والے ملک آپس میں تعاون کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک حل یہ نظر آتا ہے کہ مختلف خطوں کے ملک آپس میں مل بیٹھیں اور یہ طے کریں کہ کس ملک کو سلامتی کونسل میں جگہ ملنی چاہیے۔

سفیر منیر اکرم کہتے ہیں کہ حقیقت پسندانہ حل صرف جمہوری طریقہ کار میں ہے اور اقوام متحدہ میں اس بات کا احساس بڑھتا جار ہا ہے۔ وہ کہتے ہیں اس طریقہ کار کے مطابق ترقی پذیر اور چھوٹے ملکوں کی غیر مستقل ممبران کے طور سلامتی کونسل میں موجودگی میں مناسبت کے تحت خاطر خواہ اضافہ کیا جائے اور ملکوں کا انتخاب ووٹ کے ذریعہ عمل میں آئے تاکہ اس بڑے فورم کے ارکان جواب دہ ہوسکیں۔

عبدالحمید صیام کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں ایک واحد حل یہ ہے کہ پانچوں مستقل ارکان، جو کبھی بھی اپنا ویٹو کا اختیار نہیں چھوڑیں گے، اصلاحات کے کسی قابل قبول پیکیج پر متفق ہو جائیں اور اس طریقہ کار کو آگے بڑھائیں۔

تاہم بقول انکے،"موجودہ منقسم عالمی تناظر میں مجھے مستقبل قریب میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔"

فورم

XS
SM
MD
LG