تیسری بار منتخب ہونے کے بعد چین کے صدر شی جن پنگ کی اقتدار پر گرفت مزید مضبوط ہوگئی ہے۔ ملک کی واحد اور حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری ہونے کی وجہ سے چین کی فوج بھی صدر شی کے ماتحت آتی ہے۔ اس لیے فوج میں اہم جنرلوں کی تعیناتی کو اہمیت دی جارہی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے چین میں اعلیٰ فوجی قیادت کو دی جانے والی ترقیوں میں صدر شی نے صرف اپنے ساتھ وفاداری ہی کو ترجیح نہیں دی بلکہ ان تقرریوں میں تائیوان سے متعلق اپنے عزائم کو بھی اہمیت دی ہے جس کے لیے وہ یکسوئی کے ساتھ کسی فیصلہ کن اقدام کا عندیہ دیتے آئے ہیں۔
چین ڈیموکریٹک تائیوان کو اپنا علاقہ قرار دینے کا دعویٰ کرتا ہے اور ملک تائیوان پر کوئی بھی تنازع امریکہ، جاپان اور شاید بیشتر دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے جس سے عالمی معیشت کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے اپنی ایک رپورٹ میں مغربی اور ایشیائی ممالک کے آٹھ ملٹری اتاشیوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگرچہ تائیوان میں کسی ممکنہ اقدام کی منظوری چین کی کمیونسٹ پارٹی کے سات رکنی پولٹ بیورو سے لینا ہوگی لیکن ایسے کسی بھی منصوبے پر عمل درآمد سینٹرل ملٹری کمیشن کو کرانا ہوگا۔ یہ کمیشن چین میں دفاع سے متعلق اہم ترین فیصلے کرتا ہے۔
صدر شی نے کمیونسٹ پارٹی کے پانچ سال بعد ہونے والے اہم اجلاس کے بعد اتوار کو فوج کے مرکزی کمانڈ کے لیے تین جنرلوں کی تقرری کی ہے۔ کانگریس میں خطاب کرتے ہوئے صدر شی نے کہا تھا کہ انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ تائیوان کے معاملے میں طاقت کا استعمال نہیں کریں گے۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین میں روس کی مہم جوئی سے چین نے یہ سبق حاصل کرلیا ہے کہ پیش قدمی اور کارروائیوں دونوں میں رفتار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یوکرین کی جنگ میں آنے والے تعطل سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ کمک اور رسد کے انتظامات میں تاخیر سے لڑائی براہِ راست متاثر ہوگی۔
سنگا پور میں مقیم اسٹرٹیجک امور کے مشیر الگزینڈر نیل کا کہنا ہے کہ اگر شی جن پنگ تائیوان پر حملے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ سینٹرل ملٹری کمیشن کی جانب سے اختلافِ رائے کے متحمل نہیں ہوسکیں گے۔ وہ چاہیں گے کہ پیش قدمی برق رفتاری سے ہو جس میں کسی قسم کی رکاوٹ یا وقفے کی گنجائش نہ ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ چین ہمیشہ ہی سے تائیوان کے بارے میں اس طرح سوچتا ہے۔تائیوان کے مقابلے اور اس کی بین الاقوامی امداد کو روکنے کے لیے چین کے منصوبوں میں تیز رفتاری کے پہلو کو پیشِ نظر رکھا جائے گا۔
مضبوط گرفت
شی جن پنگ نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں ہزاروں افسران کے خلاف کرپشن کے الزامات پر کارروائی کی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے فوج پر کمیونسٹ پارٹی کے اختیار کو مزید بڑھا دیا۔
تیسری بار منتخب ہونے کے بعد انہوں نے فوج کے سات رکنی سینٹرل کمیشن میں اپنے تین وفادار جنرل تعینات کرکے فوج پر بھی اپنی گرفت مزید مضبوط کرلی ہے۔
اس کے علاوہ صدر شی نے ریٹائرمنٹ کے باوجود فوج میں اپنے قابلِ اعتماد جنرل ژانگ یوشا کی ملازمت میں توسیع دے دی ہے۔
سنگاپور کے راجا رتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز سے منسلک جیمز چار کا کہنا ہے کہ سابقہ روش سے ہٹ کر کیے گئے یہ فیصلے صدر شی کو دو مقاصد حاصل کرنے میں مدد دیں گے۔
ان کے بقول صدر شی چاہتے تھے کہ پیپلز لبریشن آرمی کی اعلیٰ قیادت نہ صرف آپریشنل اعتبار سے مضبوط ہو بلکہ اس کا سیاسی اعتبار سے ان کے لیے قابلِ اعتماد ہونا بھی ضروری تھا۔
چین کی وزارتِ دفاع نے ان حالیہ تقرریوں سے متعلق 'رائٹرز' کی جانب سے رابطہ کرنے پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
ترقی پانے والے جنرل
تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی افواج کے سینٹرل ملٹری کمیشن کو تجربے، آپریشنل صلاحیتوں اور سیاسی وفاداری کا امتزاج سمجھا جاتا ہے۔
چین کی فوج سے متعلق امریکہ کے محکمۂ دفاع پینٹا گان کی 2021 میں سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق مدتِ ملازمت میں توسیع پانے والے 72 سالہ جنرل ژانگ یوشا کا صدر شی سے خاندانی اور دیرینہ تعلق ہے۔
ژانگ کے والد نے 1949 میں چین کی خانہ جنگی کے اختتام پر صدر شی کے والد کے ساتھ فوج میں خدمات انجام دی تھیں۔
ملازمت میں توسیع کے بعد سینٹرل کمانڈ میں جنرل ژانگ اب صدر شی کے نائب ہوں گے جب کہ کمیونسٹ پارٹی کے ضوابط کے مطابق مرکزی کمانڈ کرنے والے سینٹرل کمیشن کی سربراہی پارٹی کے جنرل سیکریٹری کے پاس ہی ہوتی ہے۔
جنرل ژانگ کے ایک قریبی ساتھی جنرل لی شانگ فو کو بھی ترقی دی گئی ہے۔ جنرل لی چینی فوج کے الیکٹرانک، سائبر اور اسپیس وار فیئر سے متعلق شعبے میں کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔
جنرل ہی ویدونگ کو سینٹرل ملٹری کمیشن میں جنرل ژانگ کے نائب کے طور پر ترقی دی گئی ہے۔ جنرل ہی ویدونگ کو ایسٹرن تھیٹر کمانڈ کی سربراہی کے بعد ترقی دی گئی ہے۔ اس کمانڈ کو تائیوان میں کارروائیوں کی ذمے داری دی گئی ہے۔
انہوں نے رواں برس اگست میں تائیوان کے نواح میں غیر معمولی جنگی مشقوں اور میزائل تجربات کی نگرانی کی تھی۔ یہ مشقیں امریکہ کی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر ںینسی پلوسی کے دورۂ تائیوان کے بعد چین کی جانب سے برہمی اور احتجاج کے اظہار کے لیے کی گئی تھیں۔
جنرل ہی کو بھی صدر شی کا قریبی ساتھی تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے تائیوان کے قریبی صوبے فوجیان میں اس وقت فوج کے 31 ویں گروپ میں خدمات انجام دی تھیں جب صدر شی وہاں گورنر تھے۔
سینٹرل کمیشن میں شامل ایڈمرل میاؤ ہوا بھی فوجیان میں اسی دور میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔
سینٹرل ملٹری کمیشن میں شامل ہونے والے جنرل لیو ژنلی بیجنگ کے نواح میں تعینات فوج کی پیپلز آرمڈ پولیس کی سربراہی کرچکے ہیں۔ یہ فورس چین میں داخلی سیکیورٹی کے اداروں میں شامل ہے۔
جنرل لیو کی عمر 58 برس ہے اور وہ 1980 کی دہائی میں ویت نام کے ساتھ ہونے والی چین کی جنگ میں بھی شریک رہے ہیں۔
اس کمیشن کے ارکان میں سے کون سبکدوش ہونے والے چین کے وزیرِ دفاع ویی فینگ ہی کی جگہ لے گا، اس کا فیصلہ آئندہ برس مارچ میں ہوگا۔ جب نیشنل پیپلز کانگریس نئی حکومتی ٹیم کی منظوری دے گی۔
اگرچہ چین میں وزیرِ دفاع کو سفارتی اور عسکری دونوں شعبوں میں فعال کردار ادا کرنا ہوتا ہے تاہم یہ سینٹرل کمیشن سے زیادہ اہم نہیں ہے جو خاموشی کے ساتھ ، دنیا کی نظروں سے پوشیدہ مغربی بیجنگ میں اپنے کام میں مصروف رہتا ہے۔
اس تحریر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔