رسائی کے لنکس

ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس: کسی کو 'خوش گوار حیرت'، کسی کو 'تشویش'


پاکستان فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم نے فوجی ترجمان لیفٹننٹ جنرل بابر افتخار کے ہمراہ جمعرات کو راولپنڈی میں ایک گھنٹے سے زائد دورانیے کی پریس کانفرنس کی جسے سوشل میڈیا پر غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ نے یوں پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سامنے آن ریکارڈ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جس پر سوشل میڈیا پر مختلف تبصرے کیے جا رہے ہیں۔

پاکستان کے وزیرِ خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی متنازع کردار سے آئینی کردار پر منتقلی ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لیے اہم ہے۔

انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ اور آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کی مشترکہ پریس کانفرنس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔

وزیرِ خارجہ نے مزید کہا کہ جب ادارے کی خواہش ہے کہ وہ خود کو تبدیل کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کے فوکل پرسن بیرسٹر حسان نیازی نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور عمران خان کی ملاقاتوں سے متعلق کہا کہ وہ خود بھی تو ملتے ہیں اور اس کے باوجود ملتے ہیں کہ ان کے خیال میں انہیں غدار کہا جا رہا ہے۔

انہوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر سے سوال کیا کہ کیا اب تک پاکستان عدم استحکام کا شکار نہیں ہوا؟


عوامی نیشل پارٹی (اے این پی) کی ترجمان ثمر ہارون بلور نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ جھوٹ ہمیشہ پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔

ثمر ہارون بلور نے ایک ٹی وی چینل کا اسکرین شاٹ بھی شیئر کیا جس پر پریس کانفرنس میں کیا جانے والا ڈی جی آئی ایس آئی کا یہ دعویٰ درج تھا کہ آرمی چیف کو مارچ میں غیر معینہ مدت تک توسیع کی پیشکش کی گئی۔


سینئر صحافی حامد میر نے ٹی وی چینل 'جیو نیوز' کا ایک اسکرین شاٹ ٹوئٹ کیا جس پر تحریر تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے مطابق میر جعفر اور میر صادق کے القابات اس لیے دیے گئے کہ غیر آئینی کام سے انکار کیا گیا ہے۔

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ نے کسی کا نام نہیں لیا اور بتا بھی دیا کہ ان کا اشارہ کس کی طرف ہے۔

سماجی کارکن ماروی سرمد نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کی ایک بھر پور پریس کانفرنس میں اپنے ادارے کا دفاع کرنے کے لیے سامنے آنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ عمران خان کے دباؤ کے حربے کس قدر مؤثر ہیں۔

عمران خان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ممکن ہے اب ہم سنیں کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

جس وقت فوجی افسران کی پریس کانفرنس جاری تھی اس وقت صحافی سرل المیڈا نے ٹوئٹر پر ایک پوسٹ میں کہا کہ عمران خان جیت گئے۔

پریس کانفرنس پر صحافی سلمان مسعود نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس بریفنگ فوج کی جانب سے جاری سیاسی تنازع پر پہلا باقاعدہ ردِ عمل ہے جس سے لگتا ہے کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔

صحافی ابصا کومل نے ٹوئٹ کی کہ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل پہلی بار میڈیا پر آئے ہیں۔

ان کے مطابق فوج نے صحافی ارشد شریف کی موت پر انتہائی سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں۔

صحافی امیر عباس نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے آزادانہ اور غیر جانب دار تحقیقات کے لیے عالمی اداروں کی مدد لینے کی بھی تائید کر دی۔ حکومت اقوامِ متحدہ کو لکھے کہ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات بہترین عالمی اداروں اور ان کے ماہرین سے کرائی جائیں۔

صحافی اسد علی طور نے پریس کانفرنس میں اسٹیبلشمنٹ کے سیاست سے خود کو الگ کرنے کی بات پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس پی آر کے ڈی جی نے خاص طور پر مارچ 2021 میں ہونے والے سینیٹ کے الیکشن کا ذکر کیا اور کہا گیا کہ اس الیکشن کے بعد سے آج تک جتنے بھی الیکشن ہوئے کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ فوج یا آئی ایس آئی کسی بھی الیکشن یا مقامی حکومتوں کے انتخابات میں ملوث ہوئے ہوں۔

صحافی اعزاز سید کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کے چیف اور ڈی جی آئی ایس پی آر اصل میں کہہ رہے ہیں کہ فوج اور آئی ایس آئی نے گزشتہ برس سے عمران خان کی تمام حمایت ختم کر دی تھی جس کی وجہ سے تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔

اعزاز سید کے مطابق "انہوں نے کہا کہ اس کے بعد سے وہ غیر سیاسی ہو گئے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی نے عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ رواں برس مارچ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو غیر معینہ مدت تک لیے ملازمت میں توسیع کی پیشکش کی گئی تھی۔

صحافی عمران ریاض خان نے ایک ٹوئٹ کے جواب میں کہا کہ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے انہیں ان تمام سیاسی رہنماؤں کا نام لینا چاہیے تھا جو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملتے رہے۔

اداکارہ وینا ملک نے ایک ٹوئٹ میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کو ٹی وی پر دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ پرسکون اور مستقل خوش گوار مسکراہٹ کے ساتھ موجود رہے۔

ٹوئٹر پر ایک تبصرے میں صحافی کامران یوسف نے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لائیو پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایسی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔

صحافی انصار عباسی نے سابق وزیرِ اعظم پر تنقید کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ عمران خان نے اپنی سیاست اور الزام تراشی کے لیے فوج اور آئی ایس آئی کو اس قدر دیوار سے لگا دیا ہے کہ آج ہم ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ دیکھ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا صارف اسید صدیقی نے نشان دہی کی کہ ڈی جی آئی ایس آئی خود اپنے ادارے کو 'اسٹیبلشمنٹ' کہہ رہے ہیں۔

صحافی کامران خان نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ فوج کے افسران کی اہم ترین پریس کانفرنس میں ارشد شریف کیس کے حوالے سے اے آر وائی چینل کے مالک سلمان اقبال اور کئی اہلکاروں کے کردار پر سوالات اٹھائے ہیں۔

کامران خان کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر نے حکومت سے دو ٹوک درخواست کی کہ سلمان اقبال کو پاکستان واپس لا کر ارشد شریف کیس میں شامل تفتیش کیا جائے۔

XS
SM
MD
LG