پاکستانی فوج نے صحافی ارشد شریف کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر اس پر ہونے والی تنقید کو بلاجواز قرار دیا ہے۔فوج نے مطالبہ کیا ہے کہ صحافی کے قتل کی تحقیقات میں اے آر وائی نیوز کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) سلمان اقبال کو شامل تفتیش کیا جائے اور انہیں وطن واپس لایا جائے۔
جمعرات کو راولپنڈی میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ارشد شریف کی ہلاکت سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس کیس میں بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات آنا باقی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف 10 اگست کو پشاور سے صبح چھ بج کر 10منٹ پر دبئی روانہ ہوئے اور خیبر پختونخوا حکومت نے انہیں مکمل پروٹوکول فراہم کیا جب کہ وزیرِِ اعلیٰ کے اسٹاف نے انہیں ایئرپورٹ کے تمام کاؤنٹر پر معاونت فراہم کی۔
فوج کے ترجمان نے کہا کہ ملکی اداروں نے ارشد شریف کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر حکومت روکنا چاہتی تو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے )کے ذریعے ارشد شریف کو روکا جا سکتا تھا۔
لیفٹننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ارشد شریف متحدہ عرب امارات سے کینیا اُس وقت روانہ ہوئے جب ان کے ویزے کی مدت ختم ہوئی۔ ہماری اطلاعات کے مطابق سرکاری سطح پر ارشد شریف کو یو اے ای سے نکلنے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا۔
فوج کے ترجمان نے سوالات اٹھائے کہ ارشد شریف کے قیام و طعام کا انتظام کون کر رہا تھا؟انہیں کس نے باور کرایا کہ وہ پاکستان واپس نہ آئیں ورنہ انہیں مار دیا جائے گا؟ انہیں کس نے یقین دلایا تھا کہ ان کی جان کینیا میں محفوظ ہے؟ کینیا میں ان کی میزبانی کس نے کی اور ان کا پاکستان میں کس کس سے رابطہ تھا؟
ترجمان نے مزید کہا کہارشد شریف کی وفات سے منسلک کردار وقار احمد اور خرم احمد کون ہیں؟ ان کا ارشد سے کیا رشتہ تھا؟ کیا ارشد انہیں پہلے جانتے تھے یا کسی نے یہ رابطے استوار کروائے تھے؟ کچھ لوگوں نے ارشد شریف کے لندن میں ملاقات کے دعوے بھی کیے؟ کیا یہ دعوے بھی فیک نیوز اور غلط معلومات کی مہم کا حصہ تھے؟
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کی موت کینیا کے ایک دورداراز علاقے میں ہوئی تو پھر ان کی وفات کی خبر سب سے پہلے کس نے اور کس کو دی؟ کینیا کی حکومت اور پولیس نے اس میں اپنی غلطی کو تسلیم کیا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ واقعی غلطی کی شناخت کا واقعہ تھا یا ٹارگٹ کلنگ؟
ان کے بقول تمام حالات و واقعات میں اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو (سی ای او) سلمان اقبال کا ذکر بار بار آتا ہے۔ لہٰذا انہیں پاکستان لا کر شاملِ تفتیش کرنا چاہیے۔
فوج کے ترجمان کے مطابق یہ دیکھنا ہو گا کہ ارشد شریف کے قتل کے کیا محرکات ہیں۔ جب تک صحافی کے قتل کی حتمی رپورٹ نہیں آ جاتی کسی پر الزام تراشی مناسب نہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اگر ماضی میں فوج سے غلطیاں ہوئی ہیں تو انہیں 20 سال سے خون سے دھو رہے ہیں۔ ہم کمزور ہو سکتے ہیں غلطیاں ہو سکتی ہیں لیکن غدار اور سازشی نہیں ہو سکتے۔
'سائفر کا بیانیہ ارشد شریف اور دیگر کو فیڈ کیا گیا'
پاکستان فوج کے ترجمان نے کہا کہ آئی ایس آئی کی سائفر سے متعلق تحقیق میں سازش کے کوئی ثبوت نہیں ملے تھے اور یہ سب ریکارڈ کا حصہ ہے۔ ہم آئی ایس آئی کی فائنڈنگ سامنے رکھنا چاہتے تھے لیکن اُس وقت کی حکومت نے ایسا نہیں کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایک بیانیہ بنا کر سائفر سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ امریکہ کا نام لے کر رجیم چینج کا کہا گیا، حکومت تبدیلی کا الزام لگایا گیا، فوج کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا اور غداری کا بیانیہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف اور دیگر صحافیوں کو مخصوص بیانیہ فیڈ کیا گیا۔ ذہن سازی کے ذریعے فوج کی سپاہ اور قیادت کے درمیان فرق کے بیانیے کو پروان چڑھایا گیا اور میڈیا ٹرائل میں اے آر وائی چینل نے سازشی بیانیے کے فروغ میں کردار ادا کیا۔ ارشد شریف اداروں پر تنقید کررہے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے لیے کوئی منفی جذبات نہیں تھے۔
فوج کے ترجمان نے کہا کہ جھوٹے پروپیگنڈے کے باوجود آرمی چیف نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور کوشش کی کہ سیاست دان مل کر مسائل حل نکالیں لیکن اس میں کامیابی نہیں ہو سکی۔
ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس میں غیر متوقع شرکت
پاکستان فوج کے ترجمان کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران غیر متوقع طور پر ملک کے خفیہ اداے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم بھی تھے ۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ جھوٹ کی بنیاد پر بلاجواز تنقید کا نشانہ بنایا جائے تو ادارے کے سربراہ کے طور پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ ان کے بقول جب جھوٹ اتنی فراوانی سے بولا جائے جس سے فساد کا خطرہ ہو تو سچ کی لمبی خاموشی ملک کے لیے ٹھیک نہیں ہوتی۔
پریس کانفرنس میں میر جعفر، میرصادق کے بیانیے سے متعلق سوال پر لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ ان کے ادارے کو میرجعفر، میرصادق، غدار، نیوٹرل اور جانور اس لیے کہا گیا کہ کیوں کہ ملک کی سلامتی کے اداروں نے غیرآئینی و غیرقانونی کام کرنے سے انکار کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے خود کو آئینی کردار تک محدود کرنے کا فیصلہ گزشتہ برس کیا تھا اور یہ فیصلہ کسی فردِ واحد کا نہیں بلکہ ادارے کا تھا جس پر ادارے کے اندر بھی بہت بحث ہوئی۔
ڈی جی آئی ایس آئی کے مطابق "ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملک اور ادارے کا مفاد اسی میں ہے کہ خود کو آئینی کردار تک محدود کرتے ہوئے سیاست سے باہر نکل جائیں۔"
انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس بالخصوص رواں برس مارچ میں ہم پر کافی دباؤ تھا۔ لیکن ادارے اور آرمی چیف نے فیصلہ کیا کہ آئینی کردار تک محدود رہنا ہے اور ہم اس عزم سے نہیں ہٹیں گے۔
'عمران خان کو 'لانے' کے سوال پر سیر حاصل بحث ہو سکتی ہے'
لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا تھا کہ رواں برس مارچ میں گزشتہ حکومت نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مدتِ ملازمت میں غیرمعینہ مدت تک توسیع کی پیش کش کی تھی جسے آرمی چیف نے ٹھکرا دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کو غدار اور میر جعفر میر صادق کہا گیا۔ اگر وہ واقعی آپ کی نظر میں غدار ہیں تو آج بھی آپ ان سے پسِ پردہ کیوں ملتے ہیں؟ آپ ملیے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن یہ نہ کریں کہ آپ رات میں بند دروازوں کے پیچھے ہم سے ملیں۔ اپنی آئینی، غیر آئینی خواہشات کا اظہار کریں لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ دن کی روشنی میں آپ اسی شخص کو غدار کہیں۔ آپ کے قول و فعل میں اتنا بڑا تضاد ٹھیک نہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی کے سوال ''عمران خان کو لانے میں آپ کے ادارے کا کوئی کردار تھا۔'' پر ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ اس پر سیرحاصل بحث پھر کبھی ہوسکتی ہے۔
تحریکِ انصاف کا ردِعمل
تحریکِ انصاف کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں عدم استحکام آ چکا ہے اور اس کا حل یہی ہے کہ ملک میں فوری عام انتخابات کرائے جائیں۔
اسد عمر کے ہمراہ لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کامرہ میں ہونے والی میٹنگ میں اہم شخصیت کی موجودگی میں سائفر کو حساس معاملہ قرار دیتے ہوئے ڈی مارش کا فیصلہ کیا گیا۔ لہذٰا یہ کہنا کہ ہم نے بیانیہ گھڑا یہ حقیقت کے برعکس ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر سائفر من گھڑت کہانی تھی تو پھر امریکی سفیر کو ڈی مارش کیوں کیا گیا۔ پھر قومی سلامتی کونسل کا اجلاس کیوں بلایا گیا۔ ہم نے سائفر کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریکِ انصاف نے ہمیشہ اداروں کا احترام کیا ہے اور ہر موڑ پر ان کا دفاع کیا۔ ہم نے کبھی اداروں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔
رہنما تحریکِ انصاف اسد عمر کا کہنا تھا کہ عمران خان نے فوج سے متعلق کبھی ایسی کوئی بات نہیں کی جس سے فوج کمزور ہو۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ ملک کے لیے بہت اچھی خبر ہے کہ فوج اپنے آئینی کردار میں رہنا چاہتی ہے۔ لیکن ہم ان سے یہ سوال کرتے ہیں کہ عمران خان کی فوجی قیادت سے ملاقاتوں میں کون سا غیر آئینی مطالبہ کیا گیا؟
اسد عمر کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان 50 برس قبل نفرتوں کی وجہ سے ٹوٹا۔ پاکستان اسی لیے ٹوٹا تھا جب اکثریت کی رائے کو اہمیت نہیں دی گئی اور انہیں نظر انداز کیا گیا۔