|
نئی دہلی — بھارت کی ریاست ہریانہ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج سے نہ صرف ہارنے والی جماعت کانگریس صدمے میں ہے بلکہ جیتنے والی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بھی کم حیران نہیں ہے۔
انتخابی جائزوں، ایگزٹ پولز اور رائے شماریوں کے نتائج کانگریس کی جیت اور بی جے پی کی شکست کی پیش گوئی کر رہے تھے لیکن نتیجہ اس کے برعکس سامنے آیا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ ریاست ہریانہ کے عوام تبدیلی چاہتے تھے۔ کانگریس تبدیلی کی اس خواہش کو اپنے حق میں ووٹوں میں تبدیل نہیں کر سکی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کو بھی اپنی پارٹی کی جیت کی توقع نہیں تھی اسی لیے انہوں نے صرف چار ریلیاں نکالیں جب کہ مزید روڈ شو بھی نہیں کیے۔ بی جے پی کے انتخابی پوسٹرز پر بھی مودی کی تصویر نمایاں انداز میں لگانے سے گریز کیا گیا تھا۔
آٹھ اکتوبر کو ہریانہ میں اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا گیا تھا جس کے مطابق حکمراں بی جے پی کو اسمبلی کی 90 نشستوں میں سے 49 اور کانگریس کو 35 سیٹوں پر کامیابی ملی۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی نے ہریانہ میں جیت کی ہیٹ ٹرک مکمل کی۔
ہریانہ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر تجزیہ کار اور جریدے 'انڈیا ٹوڈے' کے سابق ایڈیٹر ہرویر سنگھ کہتے ہیں کہ بی جے پی نے جس طرح نچلی سطح پر جا کر کام کیا ہے کانگریس اس طرح نہیں کر پائی۔ بی جے پی مائیکرو مینجمنٹ میں ماہر ہے۔ وہ آخر آخر تک اپنے ووٹرز کو پولنگ بوتھس تک پہنچانے کی کوشش کرتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ریاست میں کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ بہت کمزور ہے۔ اضلاع میں اس کے صدور ہی نہیں ہیں جب کہ مرکزی رہنماؤں نے مقامی کارکنوں کے ساتھ کوئی اجلاس نہیں کیا۔
ہریانہ کے ایک بااثر کسان رہنما اور کانگریس کے حامی یوگیندر یادو نے جمعرات کو اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ بی جے پی نے جہاں اپنے ووٹرز کو پولنگ بوتھس تک پہنچایا وہیں کانگریس نے پارٹی کے جوش خروش اور ووٹرز کے از خود نکلنے پر انحصار کیا۔
ہرویر سنگھ کے مطابق ریاست کی بااثر جاٹ برادری متحد ہو کر کانگریس کے پیچھے کھڑی ہوئی اور ایسا لگا کہ کانگریس جیت گئی۔ بی جے پی نے اس معاملے کو کانگریس کے خلاف بنا دیا۔ اس نے جاٹوں کے بجائے باقی 35 برادریوں کو اپنے حق میں متحد کیا۔
یاد رہے کہ ہریانہ میں 36 برادریوں کے لوگ آباد ہیں۔
ان کے بقول بی جے پی نے غیر جاٹ برادریوں کو جاٹ برادری کا خوف دکھایا اور انہیں یہ بتانے کی کوشش کی کہ اگر کانگریس کی حکومت بن گئی تو ان پر جاٹوں کی بالادستی قائم ہو جائے گی۔
نریندر مودی پر ایک کتاب لکھنے والے مصنف اور سینئر تجزیہ کار نیلانجن مکھوپادھیائے اسے بی جے پی کی سوشل انجینئرنگ کہتے ہیں۔
ان کے بقول بی جے پی نے اپنے غیر مقبول اور بڑی ذات کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کو ہٹا کر ایک دلت رہنما نائب سنگھ سینی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جس کی وجہ سے وہ دلتوں و دیگر پسماندہ برادریوں میں یہ بتانے میں کامیاب رہی کہ وہ ان کی ہمدرد ہے۔
خیال رہے کہ بی جے پی نے اپنے بہت سے سٹنگ ایم ایل ایز کے ٹکٹ کاٹ دیے اور غیر مقبول رہنماؤں کو انتخابی مہم سے دور رکھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کانگریس نے اپنی پارٹی کی ایک خاتون دلت رہنما کماری سیلجہ کو کم اہمیت دے کر بی جے پی کو یہ موقع دیا کہ وہ کانگریس کو دلت مخالف پارٹی بنا کر پیش کرے۔ اس کی اندرونی لڑائی نے بھی پارٹی کو نقصان پہنچایا۔
ہریانہ کانگریس کے سابق وزیر اعلیٰ اور جاٹ رہنما بھوپندر سنگھ ہُڈّا اور کماری سیلجہ میں شدید اختلافات رہے ہیں۔ راہل گاندھی نے دونوں میں مصالحت کرانے کی کوشش کی۔ لیکن ہڈا اس کے لیے تیار نہیں ہوئے جس کی وجہ سے سیلجہ الگ تھلگ ہو گئیں اور وہ انتخابی مہم سے دور رہیں۔
کانگریس صدر ملک ارجن کھڑگے نے شکست کا جائزہ لینے کے لیے جمعرات کو نئی دہلی میں اپنی رہائش گاہ پر ایک میٹنگ طلب کی جس میں راہل گاندھی نے ہریانہ کے رہنماؤں پر اپنا غصہ اتارا اور کہا کہ وہ سب خود غرض ہیں اور اپنے مفاد کے لیے پارٹی کو نقصان پہنچایا۔ پارٹی نے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا اعلان کیا ہے۔
نیلانجن مکھوپادھیائے کے مطابق کانگریس نے جہاں بی جے پی کی سوشل انجینئرنگ کو نظر انداز کیا وہیں اس نے سیلجہ اور رندیپ سنگھ سرجے والا جیسے رہنماؤں کو بھی نظر انداز کیا اور بھوپندر سنگھ ہڈا کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار اعلان کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ غیر جاٹ برادریوں میں جاٹوں کی بالادستی کا خوف اور بڑھ گیا۔
ہرویر سنگھ کے مطابق کانگریس اور بی جے پی کو تقریباً برابر برابر ووٹ ملے ہیں۔ ان میں ووٹوں کا فرق ایک فی صد سے بھی کم رہا۔
بی جے پی کے بہت سے امیدوار 200، ایک یا دو ہزار ووٹوں کے فرق سے کامیاب ہوئے جس کی ایک وجہ کانگریس کے باغی امیدوار بھی بنے۔
سینئر تجزیہ کار اشوک وانکھیڈے ایک یوٹیوب چینل پر ہونے والی ڈبیٹ میں حصہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کانگریس کو اس کے باغی رہنماؤں نے کافی نقصان پہنچایا ہے۔ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے اس کے 17 رہنما باغی امیدوار بن گئے جو دوسرے نمبر پر رہے۔ ان حلقوں میں کانگریس کے امیدوار چوتھے اور پانچویں نمبر پر رہے۔
تجزیہ کار کانگریس کی شکست کی ایک اور وجہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی بھی بتاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر اس نے عام آدمی پارٹی اور سماجوادی پارٹی سے انتخابی اتحاد کیا ہوتا تو نتائج کچھ اور ہوتے۔
کانگریس نے الزام عائد کیا ہے کہ متعدد حلقوں میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) سے چھیڑ چھاڑ کی گئی۔
کانگریس کے ایک وفد نے سات اسمبلی حلقوں میں مبینہ گڑبڑ کی تفصیلات کے ساتھ بدھ کو الیکشن کمیشن آف انڈیا کے ذمے داروں سے ملاقات کی اور کہا کہ مزید ثبوت اکٹھا کیے جا رہے ہیں۔
کانگریس کے مطابق جن مشینوں کی چارجنگ 60-70 فی صد تھی ان میں کانگریس کو سبقت مل رہی تھی۔ مگر جن کی چارجنگ 99 فی صد تھی ان میں بی جے پی کو سبقت مل رہی تھی۔
جائزہ میٹنگ میں راہل گاندھی نے کہا کہ مشینوں کے سلسلے میں عائد کیے جانے والے الزامات کا جواب الیکشن کمیشن کو دینا ہے۔ وہ مشینوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ چاہتے ہیں۔
ہرویر سنگھ کے مطابق اس سے پہلے بھی مشینوں سے چھیڑ چھاڑ کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ اس بارے میں جو شکوک و شبہات اٹھ رہے ہیں وہ ان کو دور کرے اور الزامات کے بارے میں وضاحت کرے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے کانگریس کے وفد سے ملاقات کے بعد ایک بیان میں مشینوں میں گڑبڑ کے الزام کو مسترد کر دیا ہے۔ ایک سابق الیکشن کمشنر اوم پرکاش راوت بھی مشینوں میں گڑبڑ کے الزام کو مسترد کرتے ہیں۔
اشوک وانکھیڈے کے مطابق ہریانہ میں مشینوں میں گڑبڑ کی گئی ہوگی لیکن اس سے زیادہ فرق نہیں پڑا ہوگا۔ تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پہلے بھی مشینوں میں گڑبڑ کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق لوک سبھا انتخابات میں 79 سیٹوں پر جتنے ووٹ پڑے تھے اس سے زیادہ گنے گئے۔ تاہم وہ سوال کرتے ہیں کہ کانگریس مشینوں کے خلاف لڑائی کیوں نہیں لڑتی۔ مشینوں سے ووٹنگ کے خلاف کئی نجی تنظیمیں عدالتوں میں کیس لڑ رہی ہیں۔
بی جے پی کا کہنا ہے کہ کانگریس کی یہ عادت بن گئی ہے کہ جب وہ ہارتی ہے تو ای وی ایم اور الیکشن کمیشن پر الزام لگاتی ہے اور جب جیتتی ہے تو چپ رہتی ہے۔
بی جے پی کے سینئر رہنما سید شاہنواز حسین کے مطابق کانگریس اس بھرم میں مبتلا تھی کہ وہ ہریانہ میں جیت رہی ہے جب کہ وہ ہار رہی تھی۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ہریانہ کے عوام کا شکریہ ادا کیا اور کانگریس پر ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ کانگریس نے تاحال اس الزام کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔