|
"میری گاڑی قافلے کے درمیان میں تھی۔ گولیوں کی تڑ تڑاہٹ کے ساتھ ہی میں نے سواریوں کو فوری گاڑی سے نیچے اترنے کا کہا۔ جان بچانے کی خاطر ہم نے قریبی ایک پہاڑی کی جانب رخ کیا۔ لیکن وہاں بھی گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی جس کے بعد گھبراہٹ کے باعث میں اپنے آپ کو سنبھال نہ سکا اور ایک پتھر پر میرا سر جا لگا جس کی وجہ سے سر اور جسم کے دیگر حصوں پر کچھ خراشیں آئیں۔"
یہ کہنا ہے جمشید حسین کا جن کی گاڑی اُس قافلے میں شامل تھی جس پر جمعرات کو ہونے والے حملے میں 40 سے زیادہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر ہونے والے اندوہناک حملے میں جمشید بال بال بچے تھے۔ ان کے بقول، "وہ لمحات کسی بھی طرح قیامت سے کم نہیں تھے۔ میں نے جیتے جی قیامت دیکھ لی تھی۔"
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جمشید نے بتایا کہ تقریباً ایک مہینے کی بندش کے بعد جب پاڑہ چنار پشاور سڑک کھلنے کا اعلان ہوا تو وہ بہت خوش تھے کیوں کہ غربت کے باعث وہ زیادہ عرصہ گھر پر نہیں گزار سکتے تھے۔
جمشید حسین پیشے کے اعتبار سے ڈرائیور ہیں اور وہ عرصہ دراز سے پاڑہ چنار- پشاور سڑک پر گاڑی چلا کر اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔
جمشید کے بقول جمعرات کو اوچھت کے مقام پر جب حملہ آوروں نے مسافروں کی گاڑیوں پر فائرنگ کی تو وہ تقریباً بیس منٹ تک اپنی گاڑی کے پاس ساکت حالت میں پڑے رہے۔ تاہم فائرنگ کی آوازیں رکنے کے بعد ہر طرف چیخ وپکار تھی۔ اس دوران جب انہوں نے اپنی گاڑی کا جائزہ لیا تو گاڑی کی فرنٹ اسکرین سمیت مختلف حصے گولیوں کا نشانہ بنے تھے۔
ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کے مطابق علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے جب کہ واقعے میں زخمی ہونے والے افراد علی زئی، ٹل سی ایم ایچ، پاڑہ چنار اور دیگر اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دہشت گردی کے اس واقعے میں آٹھ خواتین سمیت 41 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
پاڑہ چنار سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی محمد علی طوری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ علاقے میں تین دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔ تمام کاروباری مراکز اور اسکول مکمل طور پر بند ہیں۔
ان کے بقول علاقے میں خوف و ہراس کے ساتھ غصہ بھی پایا جاتا ہے۔ شہر کی مرکزی سڑک ٹریفک کے لیے بند ہے جب کہ انٹرنیٹ اور موبائل فون سگنلز بھی بند ہیں۔
علی طوری کے مطابق مقامی عمائدین نے فیصلہ کیا ہے کہ ہلاک افراد کی نمازِ جنازہ اجتماعی کے بجائے انفرادی حیثیت میں ادا کی جائے گی۔
دلاور حسین بھی واقعے کے متاثرین میں شامل ہیں جو مسافر وین میں سوار تھے۔ ان کے بقول جب گاڑی بگن کے علاقے سے گزرتی ہوئی اوچھت کی حدود میں داخل ہوئی تو نامعلوم افراد کی جانب سے مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کی زد میں ان کی گاڑی بھی آئی۔
کرم واقعے کی ذمے داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی
دلاور حسین کو ٹانگ پر گولی لگی جنہیں علیزئی اسپتال میں ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد گھر بھیج دیا گیا تھا۔
دلاور کے بقول علیزئی اسپتال میں سہولتوں کا فقدان ہے اسی لیے یہاں سے ضروری طبی امداد کے بعد شدید زخمی افراد کو ٹل سی ایم ایچ، پاڑہ چنار اور پشاور منتقل کیا گیا ہے۔
مسافروں کی گاڑیوں پر حملے کی ذمہ داری تاحال کسی بھی گروہ نے قبول نہیں کی ہے۔ قبائلی ضلع کرم میں طویل عرصہ سے جاری فرقہ وارانہ لڑائی اور فرقہ وارانہ تشدد کے باعث سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
گزشتہ ماہ اسی علاقے میں کنج علیزئی کے مقام پر ایک مسافر گاڑی پر حملے میں 10 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اس سے قبل اگست کے مہینے میں زمین کے تنازع سے شروع ہونے والا واقعہ فرقہ وارانہ شکل اختیار کر گیا تھا جس کے نتیجے میں 40 سے زیادہ افراد ہلاک اور لگ بھگ 150 زخمی ہوئے تھے۔
رواں برس اگست میں فرقہ وارانہ لڑائی کے باعث اپر اور لوئر کرم کا درمیانی راستہ ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق مقامی جرگے کی کوششوں کے بعد گزشتہ ہفتے ہی سڑک کو کھولا گیا تھا جس کے بعد مسافروں کو کانوائے کی شکل میں لے جایا جاتا تھا۔
دوسری جانب قبائلی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کرم واقعے کو فرقہ وارانہ فسادات سے زیادہ زمین کے تنازع کو قرار دیتے ہیں۔
پشاور یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغِ عامہ سے منسلک ڈاکٹر سید عرفان اشرف کا کہنا ہے کہ کوہاٹ سے لے کر پاڑہ چنار کا پورا خطہ سنی اور اہل تشیع کمیونٹی پر مشتمل ہے۔
ان کے بقول 2018 میں آئینی ترمیم کے بعد سابقہ قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم تو کر دیا گیا تھا۔ لیکن دہائیوں سے تصفیہ طلب اراضی کے تنازعات کے پائیدار حل پر کسی نے دھیان نہیں دیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ آنے والے دنوں میں اراضی کے تنازع پر بڑے بڑے قبائل بھی مدِمقابل آ سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کی سرحد تین اطراف سے افغانستان جب کہ ایک جانب پاکستان سے جڑی ہے۔ ضلعے کا صدر مقام پاڑہ چنار ہے جہاں شیعہ مسلک کے افراد اکثریت میں آباد ہیں۔
ضلع کرم کی ہزاروں ایکڑ غیر آباد اراضی پر سنی اور شیعہ مقامی قبائل دعویدار ہیں۔ 'فاٹا' میں کرم واحد ایجنسی تھی جس کی لینڈ سیٹیلمنٹ برطانوی دورِ حکومت میں ہو چکی تھی۔
قبائلی علاقہ جات سے باخبر صحافی غلام دستگیر کے مطابق ضلع کرم میں 2007 کے علاوہ جتنے بھی فسادات ہوئے ہیں ان کی بنیاد فرقہ واریت نہیں بلکہ ذاتی دشمنیاں تھیں جس نے بعد میں فرقہ واریت کا رنگ اختیار کیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے غلام دستگیر نے بتایا کہ ضلع کرم میں تقریباً چار ہزار ایکڑ پر محیط غیر آباد شاملاتی رقبہ محکمہ مال کے کاغذات کے مطابق بالشخیل کے غُنڈی خیل قبیلے کی ملکیت ہے۔
برطانوی راج میں پہاڑوں یا دریا کے کنارے غیر آباد زمینوں کو شاملات کا نام دے کر اس کے لیے اصول مرتب کیے گئے تھے۔ یہ زمینیں قبائل کی مشترکہ ہوتی ہیں جیسے جنگلات، چراگاہ، پہاڑ یا دریا کے کنارے غیر آباد زمینیں، جنازگاہ اور قبرستان وغیرہ۔
بالشخیل کے شیعہ اور خارکلے کے سُنی قبائل کا دعویٰ ہے کہ برطانوی دور میں مرتب کیے گئے محکمۂ مال کے ریکارڈ کے مطابق یہ رقبہ اُن کی ملکیت ہے اور وہ اس تنازع کا حل اسی ریکارڈ کے تحت چاہتے ہیں۔
فورم