پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ڈھائی سال قبل ہونے والے دہشت گرد حملے میں ہلاک طلبہ کے والدین نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ سانحے میں جان سے جانے والے 144 بچوں کے ورثا کو انصاف فراہم کریں۔
پشاور میں جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے مقتول طلبہ کے لواحقین کا کہنا تھا کہ جب ملک کے سربراہ کو گھر بھیجا جاسکتا ہے تو معصوم بچوں کا خون بہانے والوں کو سزا کیوں نہیں دی جاسکتی؟
طلبہ کے لواحقین کا کہنا تھا کہ اگر واقعے کے مجرموں کو سزا نہیں دی جاسکتی تو کم از کم اتنی تحقیقات ضرور کی جائیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ کے اس سب سے بڑی واقعے میں غفلت کے مرتکب افراد کی نشاندہی ہوسکے۔
پریس کانفرنس سانحے میں ہلاک ہونے والے طلبہ کی بہنوں کی جانب سے منعقد کی گئی تھی جن میں کئی طلبہ کے والدین بھی شریک ہوئے۔
لواحقین نے صوبائی اور مرکزی حکومتوں پر مقتولوں کے خون کی سودے بازی کا الزام عائد کرتے ہوئے سانحے پر چیف جسٹس آف پاکستان کی خاموشی پر بھی تعجب کا اظہار کیا۔ متاثرہ والدین اور خواتین نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا کیونکہ ان کے بقول سابق وزیرِ اعظم اور ان کے رفقائے کار کی غلط حکمتِ عملی اور عدم توجہی کے سبب 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول کے 144 بچوں سمیت 158 افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔
خییبر پختنخوا کے وزیراعلیٰ کے مشیر اور صوبے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سرکردہ رہنما شوکت علی یوسفزئی سے آرمی پبلک سکول پشاور کے متاثرین کے مطالبے پر حکومت کے موقف کے بارے میں رابطہ کیا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ اس سانحے کے بارے میں صوبائی حکومت کی بھی عدالتی انتظامی تحقیقات کے راہ میں رکاوٹ نہیں۔ صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ لواحقین مطمعن ہو جائیں۔ 16 دسمبر 2104 کے سانحے کے بعد ملک عسکری اور سیاسی قائدین نے ملکر دہشت گردی کے حاتمے کیلئے ملکر ایک قومی لائحہ عمل مرتب کیا ہے اور اس لائحہ عمل کے تحت کثیر تعداد میں عسکریت پسندی اور دہشت گردی میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور ان میں سے بیشتر کو سخت سے سخت سزائیں دی جا چکی ہے۔
اس سانحے کے بعد ملک کے عسکری اور سیاسی قیادت نے مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی لائحہ عمل مرتب کیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد کے حوالے سے مختلف حلقوں بالخصوص سیاسی جماعتوں کے اعتراضات سامنے آتے رہے ہیں۔
حکومت بالخصوں عسکری قیادت کا دعویٰ ہے کہ سانحہ اے پی ایس کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ردالفساد اور دیگر کاروائیاں زور وشور سے جاری ہے۔
البتہ سانحے میں جان سے جانے والے معصوم طلبہ کے والدین اور دیگر لواحقین تین سال بعد بھی تاحال انصاف نہ ملنے پر شاکی ہیں اور اکثر و بیشتر احتجاج کرتے رہتے ہیں۔