پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی اہم سیاسی و مذہبی جماعتوں نے ’’پاکستانی کشمیر اور گلگت بلتستان کو آپس میں ملا کر ایک حکومت قائم کرنے‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
واضع رہے کہ یہ مطالبہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان کی طرف سے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی تجویز زیر بحث ہے۔
پاکستانی کشمیر کی حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ’’گلگت بلتستان ریاست جموں کی ایک اکائی ہے‘‘ اور یہ کہ ’’ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہوئے بغیر اسے پاکستان کا صوبہ نہیں بنایا جا سکتا‘‘۔
پیپلز پارٹی پاکستانی کشمیر کے سربراہ، چوہدری لطیف اکبر نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں کہا کہ ’’گلگت بلتستان اور پاکستانی کشمیر کی مشترکہ اسمبلی قائم کی جائے‘‘۔
مسلم کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان کا کہنا ہے کہ کشمیر کی متنازعہ حثیت کی وجہ سے، بقول ان کے، ’’پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کو اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اس علاقے کی حثیت کو تبدیل کر دیں‘‘۔
جموں کشمیر لبریشن لیگ کے سربراہ اور سابق چیف جسٹس مجید ملک نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بیاتا کہ’’28 اپریل1949ء کا وہ معاہدہ جس کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام حکومت پاکستان کے حوالے کیا گیا تھا اسے منسوخ کیا جائے اور دونوں علاقوں کو ملا کر ایک انتظامی یونٹ قائم کیا جائے‘‘۔
پاکستانی کشمیر کی جماعت اسلامی کے سربراہ اور رُکن قانون ساز اسمبلی عبدالرشید ترابی کا کہنا ہے کہ ’’دونوں علاقوں کے لئے مشترکہ انتظامی ادارے قائم کیے جائیں‘‘۔
آل جموں کشمیر جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل قاضی محمودالحسن اشرف نے کہا ہے کہ ’’پاکستانی کشمیر اور گلگت بلتستان پر مشتمل ایک انتظامی یونٹ قائم کیا جائے‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانا، ’’بھارتی کشمیر پر بھارتی قبضہ تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا‘‘۔
تحریک انصاف پاکستانی کشمیر کے صدر اور سابق وزیر اعظم بیرسڑ سلطان محمود نے کہا ہے کہ ’’گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو ملا کر ایک ریاست بنا دی جائے اور اسےپاکستانی کشمیر جیسا اسٹیٹس دیا جائے‘‘۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’’گلگت بلتستان کے صوبہ بننے سے کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادیں خود بخود بے اثر ہو جائیں گی‘‘۔
تاہم، حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ پاکستانی کشمیر کے سربراہ اور وزیر اعظم، راجہ فاروق حیدر خان چند ماہ پہلے تک گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی واضع طور پر مخالف تھے۔ لیکن، اب ان کا مؤقف ہے کہ ’’اگر اس علاقے کے لوگ کشمیر کے ساتھ نہ رہنا چائیں، تو زبردستی نہیں کی جا سکتی‘‘۔
خیال رہے کہ گلگلت بلتستان کا علاقہ اپریل 1949ء تک پاکستانی کشمیر کے زیر انتظام تھا، جس کا انتظام ایک معاہدے کے تحت حکومت پاکستان کے سپرد کیا گیا تھا۔
اس سے قبل، بھارتی کشمیر کے علیحدگی پسند راہنما علی گیلانی، یاسین ملک اور میر واعظ عمر فاروق بھی گلگلت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی تجویز پر سخت رد عمل کا اظہار کر چکے ہیں۔