وسیم اے صدیقی، کراچی —
ایم کیوایم کی جانب سے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کے مطالبے نے ملکی سیاست میں ہلچل سی مچا دی ہے ۔ بیان سامنے آنے کی دیر تھی کہ مقامی میڈیا پر اس حوالے سے زور دار بحث جھڑ گئی یہاں تک کہ باقی تمام موضوعات حتیٰ کہ سیلاب کے مسائل بھی پس ِپشت چلے گئے اور صرف اسی بیان کی گونج سنائی دیتی رہی۔
اس بیان کی ’تیزی‘ کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ محض چند گھنٹوں میں ہی اس بات کا واضح اندازہ ہوگیا کہ کون کون سی سیاسی جماعتیں کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کے حق میں ہیں اور کون کون اس خیال کی مخالف۔
ان سب سے ہٹ کر ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر واقعی کراچی میں فوج کو طلب کیا گیا تو فوج کا اپنا کیا فیصلہ ہوگا ؟کیا فوج کے لئے کراچی میں آنا اتنا ہی آسان ہوگا؟ اور اگر فوج آبھی گئی تو کب تک کراچی کا ’انتظام‘ سنبھال سکتی ہے؟
وائس آف امریکہ کے نمائندے نے اس پہلو پر مختلف سیاسی مبصرین، کارکنوں اور تجزیہ نگاروں کے خیالات جاننے کی کوشش کی اور ساتھ ساتھ کچھ زمینی حقائق کا بھی جائزہ لیا جس سے کچھ نئے اور دلچسپ پہلو سامنے آئے۔ زیرنظر تحریر انہی خیالات کا نچوڑ ہے۔
کراچی میں فوج کی طلبی یا حوالگی ۔۔ماحول سازگار نہیں
تجزیہ نگاروں اور مبصرین کے نزدیک زمینی حقائق یہ ہیں کہ کراچی میں فوج کی طلبی یا کراچی کی فوج کو حوالگی کسی طور بھی ساز گار نہیں ہوسکتی ۔ ’غیر ساز گار ماحول‘ کی سب سے بڑی وجہ دہشت گردی ہے۔ ایسی صورتحال میں جبکہ دہشت گرد پولیس، رینجرز اور سیکورٹی فورسز کو مسلسل نشانہ بناتے رہے ہیں، فوج کو کبھی بھی کراچی کی گلیوں کا رخ نہیں کرنا چاہئے۔
دہشت گردی کے ساتھ ساتھ گینگ وار بھی کراچی کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ گینگ وار میں ملوث افراد کے پاس جدید ترین اسلحہ کی موجودگی اور ان کا آزادانہ استعمال۔۔۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے فوج کی طلبی کبھی بھی دانش مندانہ اقدام نہیں ہوسکتی۔
انتخابات: فوج براہ راست تعیناتی سے دور
پاکستان میں مئی میں ہونے والے عام انتخابات کے موقع پر بھی فوج ہائی الرٹ ضرور رہی لیکن براہ راست اس کی تعیناتی عمل میں نہیں لائی گئی اور زیادہ تر پولیس اور رینجرز کو ہی سامنے رکھا گیا۔۔ مذکورہ حالات میں اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ وقت کا تقاضہ تھا۔
بدقستمی سے ضمنی انتخاب والے دن یعنی 22اگست کو فوجی نوجوانوں نے الیکشن ڈیوٹی انجام دی لیکن اسی رات کراچی میں فوجی ٹرک پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا جس میں کئی افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یہ واقعہ اس جانب بھرپور اشارہ ہے کہ کراچی میں فوج کو بلانا فی الوقت مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
پھر کیا کریں ۔۔۔؟
اب ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کراچی کے جو سنگین حالات ہیں ان کا حل کیا ہو؟ تجزیہ نگاروں کے تئیں۔۔۔ کراچی کے دن بدن بگڑتے ہوئے حالات کو سدھارنے کے لئے اسپیشل ٹارس فورس بنانا ہوگی جس کے پاس خصوصی اختیارات ہوں اور جس کی تربیت کا مقصد ہی دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اسی قسم کی خصوصی انسداد دہشت گردی فورس کا ذکر میڈیا سے گفتگو میں کئی بار کرچکے ہیں، لہذا اس فورس کی آزمائش وقت کی اولیت ترجیح ہونی چاہئے۔ مبصرین کے نزدیک ۔۔۔یہی’ سیف سائیڈ‘ ہے۔
اس بیان کی ’تیزی‘ کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ محض چند گھنٹوں میں ہی اس بات کا واضح اندازہ ہوگیا کہ کون کون سی سیاسی جماعتیں کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کے حق میں ہیں اور کون کون اس خیال کی مخالف۔
ان سب سے ہٹ کر ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر واقعی کراچی میں فوج کو طلب کیا گیا تو فوج کا اپنا کیا فیصلہ ہوگا ؟کیا فوج کے لئے کراچی میں آنا اتنا ہی آسان ہوگا؟ اور اگر فوج آبھی گئی تو کب تک کراچی کا ’انتظام‘ سنبھال سکتی ہے؟
وائس آف امریکہ کے نمائندے نے اس پہلو پر مختلف سیاسی مبصرین، کارکنوں اور تجزیہ نگاروں کے خیالات جاننے کی کوشش کی اور ساتھ ساتھ کچھ زمینی حقائق کا بھی جائزہ لیا جس سے کچھ نئے اور دلچسپ پہلو سامنے آئے۔ زیرنظر تحریر انہی خیالات کا نچوڑ ہے۔
کراچی میں فوج کی طلبی یا حوالگی ۔۔ماحول سازگار نہیں
تجزیہ نگاروں اور مبصرین کے نزدیک زمینی حقائق یہ ہیں کہ کراچی میں فوج کی طلبی یا کراچی کی فوج کو حوالگی کسی طور بھی ساز گار نہیں ہوسکتی ۔ ’غیر ساز گار ماحول‘ کی سب سے بڑی وجہ دہشت گردی ہے۔ ایسی صورتحال میں جبکہ دہشت گرد پولیس، رینجرز اور سیکورٹی فورسز کو مسلسل نشانہ بناتے رہے ہیں، فوج کو کبھی بھی کراچی کی گلیوں کا رخ نہیں کرنا چاہئے۔
دہشت گردی کے ساتھ ساتھ گینگ وار بھی کراچی کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ گینگ وار میں ملوث افراد کے پاس جدید ترین اسلحہ کی موجودگی اور ان کا آزادانہ استعمال۔۔۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے فوج کی طلبی کبھی بھی دانش مندانہ اقدام نہیں ہوسکتی۔
انتخابات: فوج براہ راست تعیناتی سے دور
پاکستان میں مئی میں ہونے والے عام انتخابات کے موقع پر بھی فوج ہائی الرٹ ضرور رہی لیکن براہ راست اس کی تعیناتی عمل میں نہیں لائی گئی اور زیادہ تر پولیس اور رینجرز کو ہی سامنے رکھا گیا۔۔ مذکورہ حالات میں اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ وقت کا تقاضہ تھا۔
بدقستمی سے ضمنی انتخاب والے دن یعنی 22اگست کو فوجی نوجوانوں نے الیکشن ڈیوٹی انجام دی لیکن اسی رات کراچی میں فوجی ٹرک پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا جس میں کئی افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یہ واقعہ اس جانب بھرپور اشارہ ہے کہ کراچی میں فوج کو بلانا فی الوقت مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
پھر کیا کریں ۔۔۔؟
اب ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کراچی کے جو سنگین حالات ہیں ان کا حل کیا ہو؟ تجزیہ نگاروں کے تئیں۔۔۔ کراچی کے دن بدن بگڑتے ہوئے حالات کو سدھارنے کے لئے اسپیشل ٹارس فورس بنانا ہوگی جس کے پاس خصوصی اختیارات ہوں اور جس کی تربیت کا مقصد ہی دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اسی قسم کی خصوصی انسداد دہشت گردی فورس کا ذکر میڈیا سے گفتگو میں کئی بار کرچکے ہیں، لہذا اس فورس کی آزمائش وقت کی اولیت ترجیح ہونی چاہئے۔ مبصرین کے نزدیک ۔۔۔یہی’ سیف سائیڈ‘ ہے۔