غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ایک فعال کردار ادا کرتی ہیں اور ان کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں۔
دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی بے شمار ایسی تنظمیں مختلف شعبوں میں کام کرتی چلی آ رہی ہیں.
لیکن حالیہ برسوں میں جہاں بہت سی این جی اوز نہ صرف اپنے وضع کردہ دائرہ کار سے تجاوز کرتی پائی گئیں وہیں ہزاروں ایسی بھی ہیں جن کا وجود صرف کاغذوں میں ہے اور وہ غیر فعال ہیں۔
وفاقی سطح پر این جی اوز کے لیے سخت قواعد و ضوابط اور ان کے دوبارہ اندراج کے بعد حکام صورتِ حال کو قدرے تسلی بخش قرار دیتے ہیں۔ لیکن اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ جنوبی صوبہ سندھ میں اندراج شدہ غیر سرکاری تنظیموں میں سے نصف سے زائد صرف "کاغذوں پر ہی وجود رکھتی ہیں"۔
سماجی بہبود کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کی مشیر شمیم ممتاز نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ان کے اندازے کے مطابق تقریباً آٹھ ہزار کے لگ بھگ این جی اوز سندھ میں رجسٹرڈ ہیں لیکن ان میں سے تقریباً 4500 ایسی ہیں جن کا محکمے سے کوئی رابطہ نہیں۔
"4500 میں کہوں گی کہ جعلی ہیں۔ کیوں کہ وہ صرف کاغذوں پر ہیں/ ان کا کہیں کوئی پتا نہیں ہے۔ محکمے نے انھیں خطوط لکھے کہ آپ اپنی رجسٹریشن دوبارہ کرائیں۔ اپنی کارکردگی کی رپورٹ پیش کریں تو ان سب کے ایڈریسز وہ نہیں ملے۔ فون نمبرز تبدیل ہو چکے ہیں۔ انھوں نے محکمے کو اس بارے میں کوئی معلومات نہیں دیں۔ تو اب میں ان این جی اوز کو جعلی سمجھوں گی۔ گھوسٹ سمجھوں یا کیا سمجھوں۔"
ان کا کہنا تھا کہ اب اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے انتباہ جاری کیا جا رہا ہے کہ ایسی این جی اوز سات دن میں محکمے سے رابطہ کریں بصورت دیگر ان کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
دوسری طرف سندھ کے دیہی علاقوں میں تین دہائیوں سے زائد عرصے سے مصروف عمل موقر غیر سرکاری تنظیم "بانھ بیلی" کے ڈائریکٹر یونس بندھانی ایسی "غیرفعال" این جی اوز کے بارے میں کہتے ہیں کہ بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں ایسی ہوتی ہیں جن کا کام موقع کی مناسبت سے ہوتا ہے۔ جیسے کہ کسی بھی طرح کی قدرتی آفات میں لوگوں کی امداد اور ان کی بحالی سے متعلق سرگرمیاں وغیرہ۔ اور ایسی تنظیمیں عموماً اپنا کام ختم ہونے کے بعد زیادہ متحرک نظر نہیں آتیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے غیر سرکاری تنظیموں کی رجسٹریشن سے متعلق وضع کیے جانے والے نئے ضوابط اور محکمہ سماجی بہبود کی مبینہ عدم توجہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے بہت سی این جی اوز کا علم نہیں ہوتا کہ وہ وجود رکھتی ہیں یا نہیں۔
"مجھے یاد پڑتا ہے کہ کبھی بھی سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ نے اپنی رجسٹرڈ آرگنائزیشن کا ضلعی سطح پر کنونشن نہیں کرایا کہ کونسی تنظیم باقاعدہ طور پر متحرک ہے اور کون سی نہیں ہے اور اس کی کیا وجوہات ہیں۔۔۔ دوسرا جو نئے قواعد و ضوابط نافذ ہو رہے ہیں مثال کے طور پر کہ جو تنظیمیں ترقیاتی شعبے یا انسانی حقوق سے متعلق کام کر رہی ہیں، کیا وہ مقامی انتظامیہ کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں تو یہ بھی ایک پیچیدہ مرحلہ ہوتا ہے۔"
ان کے بقول بعض این جی اوز کے وسائل کا کلی دار و مدار ڈونرز پر ہوتا ہے اور جب کوئی خشک سالی، قحط یا قدرتی آفات کی صورت پیدا ہوتی ہے تو انھیں فنڈز ملتے ہیں اور وہ کام کرتی ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ کی مشیر برائے سماجی بہبود شمیم ممتاز بھی غیر سرکاری تنظیموں کے کردار کو اہم قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ سب چیزوں کو دیکھ سکے۔ لیکن این جی اوز جب اپنی کارکردگی سے انھیں آگاہ کرتی ہیں تو حکومت اسے مدنظر رکھتے ہوئے ان علاقوں میں کاموں کا جائزہ لیتی ہے اور اپنا کردار ادا کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہرحال غیرسرکاری تنظیموں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قواعد و ضوابط کے مطابق ہی کام کریں۔