رسائی کے لنکس

مریم کی معذرت، فوج کا انتباہ


ارشد شریف (فائل فوٹو)
ارشد شریف (فائل فوٹو)

واشنگٹن: ایسے میں جب کینیا میں پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کی میت اسلام آباد پہنچ گئی ہے، مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے ارشد شریف کی موت سے متعلق اپنا وہ ٹویٹ ہٹا دیا ہے جس پر انہیں سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب پاکستان کی فوج کے ترجمان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے متنبہہ کیا ہے کہ غلط افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف کاروائی ہو گی۔

ارشد شریف اتوار کی رات نیروبی کے نواح میں مقامی پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے تھے اور پولیس نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ ایک مشتبہہ کار کی تلاش میں تھے اور شناخت میں غلطی کی بنیاد پر ارشد شریف مارے گئے۔

معروف اینکر کی موت پر مریم نواز نے ٹوئٹر کے ایک صارف کی حساسیت سے عاری ایک ایسی پوسٹ ری ٹویٹ کی تھی جس میں صارف نے ارشد شریف کے تابوت کی تصویر لگا کر لکھا تھا کہ یہ وہ شخص ہے جو کہتا تھا کہ نواز شریف نے اپنی مرحومہ ماں کو پارسل کیا ور دیکھیں اب یہ وقت خود اس اینکر پر بھی آ گیا ہے۔

ایک تابوت میں موجود ارشد شریف کی میت کو نیروبی سے اسلام آباد بھجوایا جا رہا ہے (رائٹرز)
ایک تابوت میں موجود ارشد شریف کی میت کو نیروبی سے اسلام آباد بھجوایا جا رہا ہے (رائٹرز)

مریم نواز نے اس پوسٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں یہ ری ٹویٹ کرتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا لیکن یہ پوری انسانیت کے لیے ایک پیغام ہے کہ ہم سب نے فنا ہونا ہے۔

مریم کی طرف سے اس ٹویٹ پر نہ صرف ارشد شریف کی بیوہ جویریہ صدیق اور مریم نواز کے سیاسی مخالفین نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا بلکہ بعض سینئر صحافیوں نے بھی اس ٹویٹ پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔

سینئر صحافی مجیب الرحمٰن شامی نے اپنی ایک ٹویٹ میں مریم نواز سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس ٹویٹ پر معافی مانگیں۔

معروف اینکر شاہ زیب خانزادہ نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ مریم نواز کی ٹویٹ انتہائی قابل مذمت ہے اور ایک شرمناک عمل ہے۔

ارشد شریف کی بیوہ جویریہ صدیق نے جواباً ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’’ مریم شرم کراور اللہ سے ڈر۔‘‘

انہوں نے اپنی ٹویٹ کے ساتھ اپنے اور ارشد شریف کے ایسے کئی ٹویٹس کے امیجز پوسٹ کیے جن میں دونوں نے مریم نواز کی والدہ کلثوم نواز کی علالت کے دنوں میں نیک خواہشات اور ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا تھا اور ان کی خدمات پر ان کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔

مسلم لیگ نواز کی نائب صدر نے اس طرح کے شدید ردعمل کے بعد یہ کہتے ہوئے ٹویٹ ہٹا دی ہے کہ ان کی ٹویٹ کا مقصد کسی کا مذاق اڑانا نہیں تھا لیکن ماضی سے سبق سیکھنے سے متعلق تھا۔

مریم نواز نے مزید کہا ہے کہ میں یہ ٹویٹ ہٹا رہی ہوں اور اگر اس سے غمزدگان کو تکلیف پہنچی ہے تو ان سے معافی مانگتی ہوں، میرا ان کو تکلیف پہنچانے کو کوئی ارادہ نہیں تھا۔ خدا کرے کہ کبھی بھی کوئی بھی اس تکلیف سے نہ گزرے۔ غمزدہ خاندان کے لیے دعائیں۔

دوسری جانب مقتول صحافی کی میت پاکستان پہنچ گئی ہے اور ٹیلی ویژن سکرینوں پر نظر آنے والے مناظر کے مطابق لوگوں کی بڑی تعداد اسلام آباد ائیرپورٹ اور قائداعظم یونیورسٹی ہاسپٹل کے سامنے موجود تھی اور وہ ان کی میت کو لے جانے والی ایمبولنس پر پھول نچھاور کر رہے تھے اور کئی جگہوں پر ان کے حق میں نعرے بازی بھی کی گئی۔ لوگ نعرے لگا رہے تھے ’ ارشد شریف تیرے خون سے انقلاب آئے گا‘‘۔

ایسے میں جب سوشل میڈیا پر ارشد شریف کی ہلاکت کے پس منطر میں سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ ان کی موت کی تحقیقات کی شروعات کینیا سے نہیں پاکستان سے کی جائیں اور حکومت اور فوج پر ڈھکے چھپے لفظوں میں تنقید ہو رہی ہے، فوج کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ غلط افواہیں پھیلانے والوں اور منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف کاروائی ہو گی۔

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر بابر افتخار نے پاکستان کے میؒڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ارشد شریف کی موت کو افسوس ناک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پس منظر میں من گھڑت کہانیاں بنا کر ادارے کو بدنام کرنے والوں کے خلاف کاروائی ہو گی۔

پاکستان میں صحافی تنظیمیں ارشد شریف کے قتل پر احتجاج کر رہے ہیں۔ (اے پی)
پاکستان میں صحافی تنظیمیں ارشد شریف کے قتل پر احتجاج کر رہے ہیں۔ (اے پی)

ارشد شریف عمران خان حکومت کے حامی اور موجودہ حکومت کے سخت نقاد تھے۔ عمران حکومت کے خاتمے کے بعد ان کے خلاف ملک کے کئی تھانوں میں غداری کے مقدمات دائر کرائے گئے۔ اس دوران وہ حکومت اور پاکستان کی فوج ، خفیہ ادارے اور فوج کے سربراہ کے خلاف کھل کر پروگرام کرتے رہے۔ ان حالات میں اے آر وائی چینل کے ساتھ ان کی وابستگی ختم ہوئی اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بقول، انہیں اطلاع ملی تھی کہ ارشد شریف کی زندگی کو خطرہ ہے اور انہوں نے یہ بات ارشد شریف کو بتا دی تھی۔ان حالات میں ارشد شریف ملک سے باہر چلے گئے تھے اور اطلاعات کے مطابق پہلے دبئی گئے اور کچھ دن بعد لندن چلے گئے اور وہاں سے کینیا پہنچے تھے۔

ارشد شریف نے پاکستان سے جانے کے بعد بھی اتحادی حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر تنقید جاری رکھی اور اپنی زندگی کے اختتام سے دو دن قبل انہوں نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر سوال اٹھایا تھا کہ پاکستان کی فوج کے سربراہ کو بھی باہر کی دنیا سے تحائف ملتے ہیں، کوئی ریکارڈ ہے کہ وہ تحائف توشہ خانہ میں جمع کرائے گئے ہوں؟

مقتول صحافی نے اسلام آباد سے تحریک انصاف کے ایک رکن قومی اسمبلی صالح محمد کے پولیس کے ہاتھوں اٹھائے جانے کے وقت بنائی گئی وائس آف امریکہ اردو کی ایک وڈیو بھی شیئر کی تھی جس میں سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک شخص پولیس والے کو زیرلب بتا رہا ہے کہ صالح محمد کہاں کھڑے ہیں ۔ ارشد شریف نے اس وڈیو کو یہ کہتے ہوئے شیئر کیا کہ کیمرے کی آنکھ سب دیکھ لیتی ہے۔

پاکستان کے ایک معروف صحافی حامد میرنے، جو خود بھی کچھ سال قبل کراچی میں نامعلوم افراد کی طرف سے قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے تھے اور ان کے پیٹ میں گولیاں ماری گئی تھیں، ارشد شریف کی والدہ سے ملاقات کے بعد ٹی وی پروگرام میں والدہ کی طرف سے وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ سے سوال پوچھا ہے کہ وہ کیا عوامل تھے جس کے سبب ارشد شریف کو ملک سے جانا پڑا؟

حامد میر، سینئر صحافی، (فائل)
حامد میر، سینئر صحافی، (فائل)

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور پاکستان کی فوج، دونوں اداروں کی طرف سے ارشد شریف کی موت پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ اعلی سطحی تحقیقات کرائی جائیں۔

ارشد شریف اتوار کی رات نیروبی کے نواح میں مقامی پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے تھے اور پولیس نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ ایک مشتبہہ کار کی تلاش میں تھے اور شناخت میں غلطی کی بنیاد پر ارشد شریف فائرنگ کا ہدف بن گئے کیوںکہ ان کی کار رکاوٹوں پر کھڑے ہونے کے بجائے آگے بڑھ گئی تھی۔

نیروبی میں وائس آف امریکہ کے نامہ نگار محمد یوسف نے کینیا کے سیکیورٹی کے ایک تجزیہ کار جارج مسامالی سے اس قتل اور قتل کے سین پر گفتگو کی ہے۔ جارج مسالی کا کہنا ہے کہ اگر مقتول پاکستانی صحافی کی شخصیت اور ان حالات پر نظر ڈالی جائے جن میں وہ کینیا گئے تو جوابات سے زیادہ سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ معاملہ غلط شناخت سے آگے کا دیکھتے ہیں۔ اور مسئلے کا بہترین حل یہ ہے کہ حکومت تحقیقات کرائے یا عدالتی تحقیقات کرائے، جہاں عدلیہ کے اہلکار لوگوں سے سوال کریں۔ اس طرح ان کہانیوں میں موجود ابہام ہمارے سامنے آجائے گا، جو ہمیں سنائی جا رہی ہیں۔ لیکن اسے پولیس تحقیقات پر چھوڑ دیا گیا تو پھر ان سوالوں کے جواب کبھی نہیں مل سکیں گے جو اس وقت اٹھائے جا رہے ہیں۔

  • 16x9 Image

    اسد حسن

    اسد حسن دو دہائیوں سے ریڈیو براڈ کاسٹنگ اور صحافتی شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ وی او اے اردو کے لئے واشنگٹن ڈی سی میں ڈیجیٹل کانٹینٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG