جمعرات کی شب لاہورکی معروف درگاہ، داتا گنج بخش میں ہونے والے دو خودکش بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 42 ہوگئی ہے جبکہ 170 سے زائد زخمیوں میں ہسپتال ذرائع کے مطابق کم از کم 20 کی حالت اب بھی تشویش ناک ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں کچھ زخمیوں نے دم توڑدیا جبکہ رات کو جائے وقوع سےامدادی کارکنوں کو مزید لاشیں ملیں جس سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔
جمعہ کی صبح سکیورٹی کیمروں سے بنائی گئی فلم بھی نجی ٹیلی ویژن چینلز پردکھائی گئی جس میں ایک حملہ آور کو درگاہ کے اندر آتے ہوئے دکھایا گیا اور جب سکیورٹی اہلکا ر اُسے پکڑنے کے لیے دوڑا توخودکش حملہ آور نے دھماکا کر دیا جس کے بعد بھگدڑ مچ گئی۔
دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں میں سے بعض کی نمازہ جنازہ جمعہ کی صبح ادا کی گئی ۔اطلاعات کے مطابق مختلف بازار اور تجارتی مرکز بند ہیں جب کہ ان حملوں کے خلاف مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والوں نے درگاہ کے باہر مظاہرہ بھی کیا۔
عینی شاہدین کے مطابق رات تقریباََ 11 بجے ہونے والےان خودکش حملوں کے بعد داتا دربار کے احاطے میں ہر طرف مرنے والوں کی لاشیں اور زخمی بکھرے پڑے تھے۔
لاہور کے کمشنر خسرو پرویز نے موقع پر موجود میڈیا کے نمائندوں کو بتایاکہ پولیس کودو خود کش بمباروں کے سر اور اعضا مل گئے ہیں جن سے تحقیقات میں مدد ملے گی۔
انھوں نے کہا کہ ایک دھماکا مسجد کے صحن میںجب کہ دوسرا نچلی منزل میں وضو خانے کے پاس ہوا اور اس وقت دربار میں لگ بھگ تین ہزارزائرین موجود تھے۔
خودکش دھماکوں کے بعد لاہور میں سکیورٹی سخت کردی گئی جب کہ مشتعل افراد نے مزار کے قریب ہنگامہ آرائی کی جِس پر قابو پانے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کے ساتھ ساتھ ہوائی فائرنگ بھی کی۔ زیادہ تر مرنے والوں کی لاشیں اور زخمیوں کو قریب واقع میو اسپتال لے جایا گیا۔
لاہور میں ہونے والے اِن خودکش دھماکوں کی تاحال کسی نے ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ نہیں کیا، لیکن حالیہ مہینوں میں لاہور میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں مبینہ’’ پنجابی طالبان‘‘ کو ملوث بتایا جاتا ہے، اور اُسی حوالے سے پنجاب کی حکومت کو اِن شدت پسندوں کی صوبے کے جنوبی اضلاع میں مبینہ پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ کا بھی سامنا ہے۔
طالبان کے ایک ترجمان نے لاہور میں داتا دربار میں ہونے والے حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے مقامات ان کے اہداف میں شامل نہیں اور’’ یہ کارروائی اُن کی تحریک کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔‘‘
پنجاب کے وزیرِ قانون کا کہنا ہے کہ صوبے میں سوات یا جنوبی وزیرستان طرز کا فوجی آپریشن ممکن نہیں۔ البتہ، حکومت کو جب کہیں دہشت گردوں کی موجودگی کا پتا چلتا ہے، اُن کےخلاف مؤثر کارروائی کرتی ہے۔
صوبائی دارالحکومت میں 28 مئی کو اقلیتی احمدی فرقے کی دو عبادت گاہوں پربھی منظم انداز میں خودکش حملے کیے گئے تھے جن میں کم از کم 82 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔