امریکہ نے افغان حکومت کی طرف سے صدر اشرف غنی کی دوسری صدارتی مدت کے لیے ہونے والی حلف برداری کی تقریب کے ملتوی کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
امریکہ نے اُمید ظاہر کی ہے کہ افغانستان کے صدارتی انتخابات کے نتائج سے متعلق تحفظات کو آئینی اور قانونی طریقے سے حل کیا جائے گا۔
امریکہ کی محکمہ خارجہ کی ترجمان مورگن اورٹیگس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کی نئی حکومت میں سب کی شمولیت ہونی چاہیے جو افغان عوام کی اُمنگوں کی مظہر ہو۔
اطلاعات کے مطابق اشرف غنی کی حلف برداری کی تقریب دو ہفتوں کے لیے ملتوی کی گئی ہے۔ تاہم اب تک افغان حکومت کی طرف سے اس بارے میں کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا ہے کہ یہ تقریب کب منعقد ہو گی۔
یاد رہے کہ حال میں افغانستان کے الیکشن کمیشن کی طرف سے گزشتہ سال ستمبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا گیا تھا۔ جس کے مطابق اشرف غنی کو کامیاب قرار دیا گیا تھا۔
صدارتی انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے والے عبداللہ عبداللہ نے دھاندلی کا الزم عائد کرتے ہوئے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے ایک متوازی حکومت کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ عدم استحکام کا سبب بننے والے اقدام سے گریز کیا جانا چاہیے جس میں بظاہر متوازی حکومت قائم کرنے کی کوششیں بھی شامل ہیں، جو اُن کے بقول آئین اور قانون کی حکمرانی کے خلاف ہے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کی ترجمان کا بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کی تقریب ہو گی۔ جس کے تحت افغانستان سے امریکی فورسز کی تعداد میں کمی کا عمل شروع ہونے کے ساتھ بین الافغان امن مذاکرات شروع ہو جائیں گے۔
امریکہ اور طالبان نے امن معاہدے پر دستخط سے قبل ایک ہفتے کے لیے تشدد میں کمی پر اتفاق کیا تھا اور یہ مرحلہ خوش اسلوبی سے مکمل ہونے کے بعد مذاکرات کا اگلہ مرحلہ مارچ میں بین الافغان امن مذکرات کی صورت میں شروع ہو گا۔
تاہم تجزیہ کاروں کے خیال میں اگر افغانستان میں صدارتی انتخابات سے متعلق تنازع شدت اختیار کرتا ہے تو بین الاافغان مذاکرات کی راہ میں مشکلات حائل ہو سکتی ہے۔
امریکہ کی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے افغان سیاسی اکابرین اور ان کے حامیوں پر زور دیا ہے کہ طاقت کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے سیاسی معاملات کو سیاسی طریقے سے حل کریں۔
ترجمان نے اس بات پر زور دیا کہ افغان سیاسی نمائندوں کو عدم استحکام کا سبب بننے والے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے اور اُنہیں ایک متوازی حکومت کی تشکیل سے بھی گریز کرنا چاہیے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کی ترجمان نے مزید کہا کہ افغان عوام امن چاہتے ہیں۔ ان کے بقول، یہ وقت انتخابی سیاست پر توجہ مرکوز کرنے کا نہیں بلکہ توجہ کا محور طالبان کے ساتھ جنگ ختم کر کے پائیدار امن کے قیام پر ہونا چاہیے۔
مورگن اورٹیگس کے بقول بین الافغان مذاکرات کے ذریعے ایک سیاسی تصفیے کی تلاش ضروری ہے جو افغانستان کے تمام شہریوں کے مفاد میں ہو۔
انہوں نے آئندہ ماہ بین الافغان مذاکرات شروع ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
مورگن اورٹیگس نے کہا کہ ہم تمام فریقین پر زور دیں گے کہ وہ مذاکرت میں حصہ لینے کے لیے فوری طور پر ایک قومی فریم ورک تشکیل دیں جو افغانستان کی پوری طرح نمائندگی کر سکے۔
دریں اثنا امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ افغانستان کی وزارتِ خارجہ نے جمعرات کو شیڈول صدارتی حلف برداری کی تقریب کو نو مارچ تک ملتوی کر دیا ہے۔
خلیل زاد کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے ضروری مشاورت کے لیے وقت میسر آئے گا۔ تاکہ افغانستان اور اس کے عوام کے بہتر مفاد کا نئی حکومت میں تحفظ کیا جا سکے۔
زلمے خلیل زاد نے کہا کہ وہ اُمید کرتے ہیں کہ نئی حکومت کا قیام اتفاق رائے سے ہو۔