رسائی کے لنکس

پاکستان میں بے روزگاری بڑھے گی: اے ڈی بی; نئے روزگار پیدا ہوں گے: حکومت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ کرونا وائرس کے باعث پاکستان میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور آئندہ چھ ماہ کے دوران مزید 22 لاکھ افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔ تاہم حکومتی معاشی ماہرین کو توقع ہے کہ اے ڈی بی کا یہ اندازہ غلط ثابت ہو گا۔

اے ڈی بی کی جاری کردہ حالیہ ​رپورٹ کے مطابق آئندہ تین سے چھ ماہ کے دوران خطے میں بے روزگاری میں بڑے پیمانے پر اضافے کا خدشہ ہے اور تین ماہ میں ایک کروڑ، جب کہ چھ ماہ میں ڈیڑھ کروڑ افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس آسٹریلیا، انڈونیشیا، جاپان، ملائیشیا اور ویت نام کو پہلے سے خاصا معاشی نقصان پہنچا چکا ہے۔

اے ڈی بی کے مطابق پاکستان میں بھی نوجوانوں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے اور آئندہ تین ماہ میں لگ بھگ 15 لاکھ اور چھ ماہ میں 22 لاکھ سے زیادہ افراد کی نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں۔​

دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان کی معاشی مشاورتی کونسل کے رکن ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں کمی اور معیشت کی بحالی کے پیش نظر وہ پر امید ہیں کہ اے ڈی بی کا یہ اندازہ درست ثابت نہیں ہو گا۔

معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ یہ اندازہ درست ہے کہ آئندہ مہینوں میں پاکستان میں بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔ لیکن اے ڈی بی نے اس حوالے سے محتاط اندازہ پیش کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ اگرچہ کرونا وائرس کے سبب پاکستان پر بے روزگاری کے اثرات اس طرح مرتب نہیں ہوں گے جیسا کہ یورپی ممالک میں ہو رہے ہیں۔ تاہم ایک اندازے کے مطابق پہلے سے خراب معیشت کا منفی ہونا، 21 فی صد نوجوانوں کو بے روزگار کر سکتا ہے۔

جون میں وزارتِ خزانہ نے سینیٹ کو بتایا تھا کہ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والے معاشی بحران کے باعث ملک میں 30 لاکھ افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔

عابد سلہری معاشی امور کے ماہر اور وزیرِ اعظم کی معاشی مشاورتی کونسل کے رکن ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنی معیشت کو بحال کر دیا ہے جس سے ملک میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور اس سے یقینی طور پر بے روزگاری میں کمی آئے گی۔

عابد سلہری نے کہا کہ پاکستان میں بے روزگاری کے اثرات اس انداز میں مرتب نہیں ہوں گے جس کا سامنا یورپی ملکوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کے بقول پاکستان میں 42 فی صد افراد زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور کرونا وائرس کے باوجود اس شعبے کی پیداوار میں بہتری دکھائی دے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں معیشت مکمل طور پر بحال ہو چکی ہے جس سے بے روزگاری میں کمی آئے گی کیونکہ معیشت کو چلانے کے لیے افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں سیمنٹ اور سریا کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ ہوا، جس کا زیادہ تر استعمال تعمیرات کے شعبے میں ہوا ہے، اس سے یقیناً نئے روزگار پیدا ہوئے ہیں۔

پاکستان کے مرکزی بینک نے بھی گزشتہ ماہ اپنی سہ ماہی رپورٹ میں کہا تھا کہ کرونا کی وبا اور ٹڈی دل کے حملے سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔ لیکن وبا کا زور ٹوٹنے کے بعد ملکی معیشت میں بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں۔

خیال رہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے پاکستان کی معیشت کو شدید دھچکا لگا ہے اور مجموعی قومی پیداوار 68 سال میں پہلی بار منفی 0.4 فی صد تک گری ہے جس کی بنیادی وجہ صنعتی سرگرمیوں اور خدمات کے شعبوں کی پیداوار میں کمی تھی۔

XS
SM
MD
LG