پاکستان کے صوبۂ خیبر پختونخوا کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبہ مکمل ہو چکا ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان 13 اگست کو اس کا افتتاح کریں گے۔
وزیرِ اعلیٰ محمود خان کے مشیر برائے اطلاعات کامران بنگش نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ بی آر ٹی منصوبہ مکمل ہو چکا ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا میں ٹرانسپورٹ کا ایک معیاری منصوبہ ثابت ہو گا۔
اس بس منصوبے میں 29 کلو میٹر پر مختلف مقامات پر 30 اسٹیشن بنائے گئے ہیں جس پر روزانہ 220 بسیں مسافروں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچائیں گی جب کہ مختلف مقامات پر پارکنگ کی سہولت بھی فراہم کی جا رہی ہے۔
کامران بنگش کا کہنا تھا کہ بی آر ٹی منصوبہ جدید دور کے تمام تر تقاضوں اور ضروریات پر پورا اترنے والا منصوبہ ہے جس سے روزانہ تین لاکھ 60 ہزار لوگ استفادہ کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں کامران بنگش نے کہا کہ ابتدا میں اس منصوبے کے اخراجات کا تخمینہ 49 ارب روپے لگایا گیا تھا۔ تاہم اب یہ منصوبہ لگ بھگ 67 ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہوا ہے۔
کامران بنگش کے بقول اس منصوبے کے لیے 50 کروڑ ڈالر 'ایشین ڈویلپمنٹ بینک' نے بھی فراہم کیے ہیں۔
واضح رہے کہ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے رہنما یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ بی آر ٹی منصوبے کی لاگت 100 ارب روپے سے زائد ہے۔
سابق صوبائی وزیر اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما مولانا امان اللہ حقانی کی ایک درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو اس منصوبے میں مبینہ مالیاتی بے ضابطگی کے بارے میں تحقیقات کا بھی حکم دیا تھا۔
صوبائی حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر کے حکم امتناع حاصل کر لیا تھا۔ صوبائی حکومت کا مؤقف تھا کہ تحقیقات سے تعمیراتی کام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
مولانا امان اللہ حقانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بس منصوبے کے افتتاح کے بعد وہ حکم امتناع خارج کرنے کے لیے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔
بس منصوبے کی تکمیل کے بارے میں خیبر پختونخوا حکومت کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے مولانا امان اللہ حقانی نے کہا کہ منصوبے پر مختلف مقامات پر تعمیراتی کام اب بھی جاری ہے جب کہ حیات آباد سمیت مختلف اسٹیشن سہولیات سے محروم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تکمیل کے اعلان اور نام نہاد افتتاح کا مقصد عوام کو دھوکہ دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
خیال رہے کہ اکتوبر 2017 میں سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ وفاقی وزیر پرویز خٹک نے پشاور کے بی آر ٹی منصوبے کا افتتاح کرتے وقت منصوبہ چھ ماہ میں مکمل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم اس منصوبے کی تکمیل میں تین سال لگ گئے۔
'پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی' کے انجینئر گوہر علی خان ابتدا میں اس منصوبے سے منسلک ہوئے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے منصوبے میں خامیوں کی نشان دہی کر کے اسے غلط اور غیر ضروری منصوبہ قرار دیا تھا۔
انجینئر گوہر اپنے سابقہ مؤقف پر قائم ہیں اور کہتے ہیں کہ اس منصوبے میں اب بھی بہت سی غلطیاں ہیں جن کا ازالہ اب ممکن نہیں ہے۔ مستقبل میں اس منصوبے کو ختم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اس منصوبے میں انجینئرز کو آزادانہ طور پر کام نہیں کرنے دیا گیا۔
انجینئر گوہر کے بقول اس منصوبے کی تعمیر میں غیر معیاری مٹیریل استعمال ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ زیادہ عرصے تک قابلِ استعمال نہیں رہے گا اور اگر استعمال ہو بھی جائے تو اس پر حادثات کے امکانات زیادہ ہوں گے جس سے انسانی جانوں کا ضیاع ہو گا۔
مبصرین کے مطابق اس منصوبے پر اکتوبر 2017 میں کام شروع ہونے پر پشاور کے کاروباری اور تجارتی شعبے پر بھی منفی اثرات پڑے تھے۔ منصوبے کی تعمیر کے دوران متاثرہ دکان داروں اور تاجروں نے متعدد بار ہڑتال اور احتجاج بھی کیے۔
بس منصوبے کی تکمیل اور افتتاح کے بعد پشاور میں تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کے بحال ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔