میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران جھڑپوں میں کم سے کم 18 افراد کی ہلاکت اور 30 کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔
اتوار کو مظاہروں میں شدت آ گئی اور پولیس کی جانب سے مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سیدھی فائرنگ کی گئی اس دوران ینگون سمیت کئی علاقے میدانِ جنگ کا منظر پیش کرتے رہے۔
عینی شاہدین کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے ملک کے سب سے بڑے شہر ینگون میں مشتعل مظاہرین کے خلاف آنسو گیس اور ربر کی گولیاں استعمال کیں جب کہ مظاہرین کو منتشر کرنے میں ناکامی پر بعض مقامات پر سیدھی فائرنگ کی گئی جس سے ہلاکتیں ہوئیں۔
میانمار کی فوج نے یکم فروری کو آنگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر مارشل لا لگا دیا تھا جس کے بعد ملک بھر میں فوج مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے میانمار میں ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے فوجی حکومت پر زور دیا ہے کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال فوری طور پر روک دے۔
ااقوامِ متحدہ میں امریکہ کی نئی سفیر لنڈا تھامس نے میانمار کے عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے ٹوئٹ کی ہے کہ امریکہ جمہوریت کی بحالی کے لیے میانمار کے عوام کی اس جدوجہد میں اُن کے ساتھ ہے۔
فوجی بغاوت کے خلاف میانمار کے عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے جب کہ امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے فوج کے اس اقدام کی مذمت کی تھی۔ خیال رہے کہ میانمار میں چند سال قبل طویل آمریت کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تھی جس پر جمہوریت نواز حلقوں نے سکھ کا سانس لیا تھا۔
البتہ، دوبارہ فوج کے اقتدار سنبھالنے پر ملک کے مستقبل کے حوالے سے مختلف خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
فوج کی طرف سے ملک میں ایک سال کی ایمر جنسی نافذ کر دی گئی تھی جب کہ فوج کا موقف تھا کہ گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات سامنے آئے تھے۔ تاہم فوج کے دعووں کو میانمار کے الیکٹورل کمیشن کی طرف سے رد کیا گیا تھا۔
اقوامِ متحدہ میں میانمار کے سفیر کی برطرفی
ہفتے کو میانمار کے سرکاری ٹی وی پر یہ اعلان ہوا ہے کہ اقوامِ متحدہ میں میانمار کے سفیر چاؤ مو ٹن کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ سرکاری اعلامیے میں کہا گیا کہ سفیر کو ملک سے بغاوت کرنے پر برطرف کیا گیا۔
میانمار کے سفیر نے جمعے کو اقوامِ متحدہ میں خطاب کے دوران عالمی قوتوں پر زور دیا تھا کہ وہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
میانمار کے سفیر نے کہا تھا کہ وہ نیشنل لیگ فار ڈیمو کریسی کی حکومت کے نمائندے ہیں جو میانمار کے عوام کی نمائندہ حکومت ہے نہ کے فوج جس نے زبردستی اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔
اُنہوں نے کہا تھا کہ اس جدید دور میں میانمار میں لگایا گیا مارشل مکمل طور پر غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔