جرمنی کے شہر کولون میں اتوار کو دو علیحدہ حملوں میں دو پاکستانی اور ایک شامی شہری زخمی ہو گئے۔
یہ وہی شہر ہے جب نئے سال کے موقع پر تقریبات میں سینکڑوں عورتوں نے شکایت کی تھی کہ انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔
کولون میں 500 عورتوں کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی شکایات موصول ہونے کے بعد شہر میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ان شکایات کی تحقیقات میں پناہ گزینوں اور تارکین وطن پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔
جرمن ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے وزیر داخلہ نے پیر کو کہا کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ وہ تمام لوگ جنہوں نے عورتوں کے خلاف جرائم کیے وہ تارکین وطن یا پناہ گزین تھے۔ تاہم ان کے اس بیان کی کسی اور سرکاری عہدیدار نے توثیق نہیں کی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اتوار کی شام 20 افراد کے ایک گروہ نے چھ پاکستانیوں پر حملہ کیا جن میں سے دو کو اسپتال داخل کرنا پڑا۔
اس کے کچھ دیر بعد ایک گروہ نے ایک شامی شخص پر حملہ کر کے اسے زخمی کر دیا۔
ہفتے کو کولون میں ایک اسلام مخالف تنظیم نے مظاہرہ کیا جسے ہنگامی پولیس نے منتشر کر دیا۔
عورتوں پر حملوں اور ان کے ردعمل میں کیے گئے حملوں سے گزشتہ سال ملک میں آنے والے 11 لاکھ شامی پناہ گزینوں پر توجہ مرتکز ہو گئی ہے جس کے بعد پناہ گزینوں سے متعلق قوانین سخت کرنے پر بحث چھڑ گئی ہے۔