آسٹریلیا میں ایک عہدیدار نے بتایا ہے کہ شام اور عراق کی جنگوں سے متاثر ہونے والے 12000 پناہ گزینوں کی آسٹریلیا میں آبادکاری کا عزم تقریباً مکمل ہونے جا رہا ہے۔
امیگریشن اور بارڈر پروٹیکشن کے وزیر پیٹر ڈٹون نے ایک بیان میں کہا کہ تمام 12000 افراد کو ویزا جاری کر دیے گئے تھے جب کہ دس ہزار سے زائد کو پہلے ہی مشرق وسطیٰ کے پناہ گزین کیمپوں سے آسٹریلیا میں لایا جا چکا ہے۔
ان کے بقول باقی ماندہ کو آئندہ مہینوں میں آباد کر دیا جائے گا۔
یہ ان 13750 پناہ گزینوں کے علاوہ ہیں جنہیں آسٹریلیا ہر سال اپنے ہاں آنے کی اجازت دیتا ہے۔
سابق وزیراعظم ٹونی ایبٹ نے ستمبر 2015ء میں اعلان کیا تھا کہ 12000 پناہ گزینوں کو جتنا جلد ممکن ہو سکا یہاں آباد کیا جائے گا۔ لیکن اس اعلان کے ایک ہفتے بعد ہی ان کی جگہ موجودہ وزیراعظم میلکم ٹرنبل نے یہ منصب سنبھال لیا تھا۔
آسٹریلیا کی گنجان آباد ریاست نیو ساؤتھ ویلز میں پناہ گزینوں کی آبادکاری کے معاون پیٹر شرگولڈ کہتے ہیں کہ اس عمل میں تاخیر لوگوں کی جانچ کے کڑے عمل کی وجہ سے ہوئی۔
حکومت میں شامل بعض قدامت پسند قانون سازوں نے کابینہ پر زور دیا ہے کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے کیونکہ شام سے آنے والے پناہ گزینوں سے آسٹریلیا میں انتہا پسندی کا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
ٹرنبل نے گزشتہ ستمبر میں اُس وقت کے امریکی صدر براک اوباما کی طرف سے منعقد کی گئی ایک عالمی کانفرنس میں کہا تھا کہ دو کروڑ چالیس لاکھ آبادی والا ملک آسٹریلیا اپنے ہاں پناہ گزینوں کی آمد کی تعداد کو 2018 تک سالانہ پانچ ہزار سے 18750 تک بڑھائے گا۔
آسٹریلیا نے اس بات پر بھی اتفاق کیا تھا کہ وہ امریکہ کی زیر قیادت پناہ گزینوں کے ایک پروگرام کے تحت کوسٹا ریکار کے کیمپوں میں رہنے والے ہونڈرس اور سیلواڈور کے پناہ گزینوں کو بھی اپنے ہاں آباد کرے گا۔