آٹزم پر بہت بار بات چیت کی جاتی ہے مگر اسے کم ہی سمجھا گیا ہے کہ حقیقت میں آٹزم یا خود تسکینی کی کیفیت کسے کہا جاتا ہے؟
اِس نفسیاتی خرابی میں مبتلا بچوں کو عموماً اُن کے رویے کی وجہ سے شرارتی، الگ تھلگ رہنے والا، بدمزاج اور خاموش سمجھنے کی غلطی کی جاتی ہے۔
آپ مشہور سائنسدان نیوٹن ،آئن اسٹائن، موسیقار موزرٹ کے ناموں سے تو واقف ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں آٹزم تھا۔ آٹزم ایک موروثی کیفیت ہے جو نسلوں میں منتقل ہوسکتی ہے۔
خود تسکینی کی کیفیت دراصل کوئی مرض نہیں ہے یہ ایک نفسیاتی خرابیوں کا مجموعہ ہے جس میں بچہ اپنے آپ میں گم رہتا ہے اور توجہ مرکوز نہیں کرپاتا۔ اس کی حرکات و سکنات میں ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ نیز، اُن میں حواس خمسہ یعنی محسوس کرنا، سماعت کی حس یا تو بہت حساس ہوتی ہیں یا یہ پھر نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ نے 2 اپریل کو آٹزم کے دن کے طور پر مخصوص کیا ہے۔ اس دن کے حوالے سے اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری بانکی مون نےکہا ہے کہ،'ابتدائی مداخلت آٹزم والے افراد کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہے، تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکیں۔'
'اب وقت آ گیا ہے کہ ہم معاشرے میں موجود ایسے لوگوں کے لیے کام کریں اور متاثرہ افراد کی صلاحیتوں کو اجاگر کریں اور انھیں ان کی صلاحیتوں کے مطابق مواقع فراہم کریں۔ ساتھ ہی، اُنھیں ان کی صلاحیتوں کا احساس دلائیں اور انھیں جینے کا حوصلہ دیں، تاکہ وہ بھی معاشرے کا ایک کارآمد حصہ بن سکیں ۔'
برطانوی محکمہٴصحت کی نئی ریسرچ کے مطابق، برطانیہ میں ہر 100 میں سے ایک بالغ خود تسکینی کی کیفیت میں مبتلاہے۔ جبکہ، امریکہ کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اسکول جانے والے 50 میں سے ایک بچہ آٹزم میں مبتلا ہے۔
آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر (ASD) کو آٹزم کی ملتی جلتی کیفیتوں کا مجموعہ ہے، جن میں آٹزم، غیر مخصوص آٹزم اور اسپرجرز سینڈروم کا نام شامل ہے۔ اگر کوئی فرد آٹزم میں مبتلا ہو تو عام طور پر اپنی نشوونما کے دوران اسے تین میدانوں میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔
بات چیت کرنےاور زبان سمجھنےاور استعمال کرنے میں دشواری، لوگوں کے ساتھ سماجی تعلقات استوار کرنے میں دشواری اور اپنے روئیے اور تخیلات کو استعمال کرنے میں دشواری۔ آٹزم کی تمام کیفیات میں دشواریاں مشترک ہوتی ہیں۔ لیکن، ان کی یہ نفسیاتی معذوری ان پر بالکل مختلف طریقے سے اثرانداز ہوتی ہے۔ کچھ افراد اپنی زندگی خود مختارانہ طریقے سے گذارنے کے اہل ہوتے ہیں، جبکہ بعض کو ساری زندگی مخصوص تعاون کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
حال ہی میں آٹزم پر ایک تحقیق'جرنل جاما سائیکا ٹری' میں شائع ہوئی ہے جس میں برطانیہ، سویڈن اور آسٹریلیا کے تحقیق دان شامل تھے۔ اُن کے مطابق، آٹزم ایک موروثی خطرہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔
اس تحقیق میں میں 6000 افراد اور خاندانوں کے نفسیاتی ریکارڈ کا تجزیہ کیا گیا جو سنہ1932 سے اب تک آٹزم کے ساتھ سویڈن میں پیدا ہوئے ہیں۔
اسی تعداد کو 31000 ایسے افراد کے ساتھ جانچا گیا، جن کو آٹزم نہیں تھا جو اسی دور میں پیدا ہوئے تھے۔
پھر دونوں جانب یہ موازنہ کیا گیا کہ دادا یا نانا کس عمر میں باپ بنے تھے اور ان کی نفسیاتی معلومات بھی جمع کی گئیں۔
تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ آٹزم کا خطرہ ان بچوں میں زیادہ تھا جن کے دادا یا نانا 50 برس یا اس سے زیادہ عمر میں باپ بنے تھے۔
کنگ کالج لندن سے تعلق رکھنے والے معاون تحقیق دان ایوی کے مطابق، انسانی نفسیات کے حوالے ایسا پہلی بار بتایا جارہا ہے کہ دادا اور نانا کی زندگی گزارنے کا انداز آپ پر اثر انداز ہو سکتا ہے'۔
اس تحقیق کے مطابق جینس میں موجود ابنارمل سیلز آپ کے بیٹے یا بیٹی کو تو ضرر نہیں پہنچاتے، لیکن آنے والی نسلوں میں آٹزم کے خطرات پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
دوسری جانب، برطانیہ میں آٹزم پیدا کرنے والے محرکات کا جائزہ لینے کے لیے ایک تحقیق راڈ کلف ہسپتال آکسفورڈ میں کی جارہی ہے۔ لیکن، دماغ کا عطیہ نہ ملنے کی وجہ سے یہ تحقیق تعطل کا شکار ہو گئی ہے۔'برطانوی برین بنک آف آٹزم' گزشتہ چار برس سے دماغ کے عطیے کی اپیل کر رہا ہے جنھیں اپنی تحقیق کے لیے صحت مند دماغ کی ضرورت ہے۔ لیکن، لوگ اعضا عطیہ کرتے ہیں تو اس کا مقصد کسی کی جان بچانا ہوتا ہے مگر تحقیق کے لیے جسم کا اہم ترین عضو عطیہ کرنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔
آٹزم میں مبتلا بچے جب نوجوانی میں قدم رکھتے ہیں تو انھیں دنیا ایک جنجال معلوم ہوتی ہے انھیں سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ کیوں خوش ہوتے ہیں یا وہ کیسے پہلی ہی ملاقات میں آپس میں اتنا گھل مل جاتے ہیں۔
آٹزم کی اسپرجرز سینڈروم رکھنے والےبچے عموماً ذہین یا بے حد ذہین ہوتے ہیں۔ جنھیں رنگوں، اشکال اور ریاضی میں مہارت حاصل ہوتی ہے۔ یہ اسکول اور کالج میں ایک ہونہار طالب علم ہو سکتے ہیں یہ زیادہ تر اپنے پسندیدہ موضوعات پر ہی بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ ایک ہی جیسے مشاغل کو روزمرہ کرنے سے بور نہیں ہوتے، اور اپنے پسندیدہ موضوع پر ضرورت سے زیادہ معلو مات اکھٹی کرلیتے ہیں۔ اکثر ان میں یاسیت اور اداسی پیدا ہوجاتی ہے، کیونکہ انھیں اپنے محسوسات کا اظہار کرنا نہیں آتا۔
گو کہ اب تک اس نفسیاتی معذوری کا کوئی علاج دریافت نہیں کیا جاسکا، تاہم آٹزم سے آگاہی کے اداروں اور سرکاری اسپتالوں میں آٹزم سے متعلق معلومات حاصل کی جاسکتی ہے، جس سے بچے کی تربیت کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ایسے بچوں سے آسان اور سادہ الفاظ میں بات کرنا اور چھوٹے چھوٹے فقروں میں بات کرنا ان کے لیے مددگار ہو سکتا ہے، جبکہ کسی بھی سوال کرنے کے بعد جواب کے لیے انھیں وقت دینا بھی انتہائی ضروری ہے۔
اِس نفسیاتی خرابی میں مبتلا بچوں کو عموماً اُن کے رویے کی وجہ سے شرارتی، الگ تھلگ رہنے والا، بدمزاج اور خاموش سمجھنے کی غلطی کی جاتی ہے۔
آپ مشہور سائنسدان نیوٹن ،آئن اسٹائن، موسیقار موزرٹ کے ناموں سے تو واقف ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں آٹزم تھا۔ آٹزم ایک موروثی کیفیت ہے جو نسلوں میں منتقل ہوسکتی ہے۔
خود تسکینی کی کیفیت دراصل کوئی مرض نہیں ہے یہ ایک نفسیاتی خرابیوں کا مجموعہ ہے جس میں بچہ اپنے آپ میں گم رہتا ہے اور توجہ مرکوز نہیں کرپاتا۔ اس کی حرکات و سکنات میں ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ نیز، اُن میں حواس خمسہ یعنی محسوس کرنا، سماعت کی حس یا تو بہت حساس ہوتی ہیں یا یہ پھر نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ نے 2 اپریل کو آٹزم کے دن کے طور پر مخصوص کیا ہے۔ اس دن کے حوالے سے اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری بانکی مون نےکہا ہے کہ،'ابتدائی مداخلت آٹزم والے افراد کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہے، تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکیں۔'
'اب وقت آ گیا ہے کہ ہم معاشرے میں موجود ایسے لوگوں کے لیے کام کریں اور متاثرہ افراد کی صلاحیتوں کو اجاگر کریں اور انھیں ان کی صلاحیتوں کے مطابق مواقع فراہم کریں۔ ساتھ ہی، اُنھیں ان کی صلاحیتوں کا احساس دلائیں اور انھیں جینے کا حوصلہ دیں، تاکہ وہ بھی معاشرے کا ایک کارآمد حصہ بن سکیں ۔'
برطانوی محکمہٴصحت کی نئی ریسرچ کے مطابق، برطانیہ میں ہر 100 میں سے ایک بالغ خود تسکینی کی کیفیت میں مبتلاہے۔ جبکہ، امریکہ کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اسکول جانے والے 50 میں سے ایک بچہ آٹزم میں مبتلا ہے۔
آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر (ASD) کو آٹزم کی ملتی جلتی کیفیتوں کا مجموعہ ہے، جن میں آٹزم، غیر مخصوص آٹزم اور اسپرجرز سینڈروم کا نام شامل ہے۔ اگر کوئی فرد آٹزم میں مبتلا ہو تو عام طور پر اپنی نشوونما کے دوران اسے تین میدانوں میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔
بات چیت کرنےاور زبان سمجھنےاور استعمال کرنے میں دشواری، لوگوں کے ساتھ سماجی تعلقات استوار کرنے میں دشواری اور اپنے روئیے اور تخیلات کو استعمال کرنے میں دشواری۔ آٹزم کی تمام کیفیات میں دشواریاں مشترک ہوتی ہیں۔ لیکن، ان کی یہ نفسیاتی معذوری ان پر بالکل مختلف طریقے سے اثرانداز ہوتی ہے۔ کچھ افراد اپنی زندگی خود مختارانہ طریقے سے گذارنے کے اہل ہوتے ہیں، جبکہ بعض کو ساری زندگی مخصوص تعاون کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
حال ہی میں آٹزم پر ایک تحقیق'جرنل جاما سائیکا ٹری' میں شائع ہوئی ہے جس میں برطانیہ، سویڈن اور آسٹریلیا کے تحقیق دان شامل تھے۔ اُن کے مطابق، آٹزم ایک موروثی خطرہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔
اس تحقیق میں میں 6000 افراد اور خاندانوں کے نفسیاتی ریکارڈ کا تجزیہ کیا گیا جو سنہ1932 سے اب تک آٹزم کے ساتھ سویڈن میں پیدا ہوئے ہیں۔
اسی تعداد کو 31000 ایسے افراد کے ساتھ جانچا گیا، جن کو آٹزم نہیں تھا جو اسی دور میں پیدا ہوئے تھے۔
پھر دونوں جانب یہ موازنہ کیا گیا کہ دادا یا نانا کس عمر میں باپ بنے تھے اور ان کی نفسیاتی معلومات بھی جمع کی گئیں۔
تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ آٹزم کا خطرہ ان بچوں میں زیادہ تھا جن کے دادا یا نانا 50 برس یا اس سے زیادہ عمر میں باپ بنے تھے۔
کنگ کالج لندن سے تعلق رکھنے والے معاون تحقیق دان ایوی کے مطابق، انسانی نفسیات کے حوالے ایسا پہلی بار بتایا جارہا ہے کہ دادا اور نانا کی زندگی گزارنے کا انداز آپ پر اثر انداز ہو سکتا ہے'۔
اس تحقیق کے مطابق جینس میں موجود ابنارمل سیلز آپ کے بیٹے یا بیٹی کو تو ضرر نہیں پہنچاتے، لیکن آنے والی نسلوں میں آٹزم کے خطرات پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
دوسری جانب، برطانیہ میں آٹزم پیدا کرنے والے محرکات کا جائزہ لینے کے لیے ایک تحقیق راڈ کلف ہسپتال آکسفورڈ میں کی جارہی ہے۔ لیکن، دماغ کا عطیہ نہ ملنے کی وجہ سے یہ تحقیق تعطل کا شکار ہو گئی ہے۔'برطانوی برین بنک آف آٹزم' گزشتہ چار برس سے دماغ کے عطیے کی اپیل کر رہا ہے جنھیں اپنی تحقیق کے لیے صحت مند دماغ کی ضرورت ہے۔ لیکن، لوگ اعضا عطیہ کرتے ہیں تو اس کا مقصد کسی کی جان بچانا ہوتا ہے مگر تحقیق کے لیے جسم کا اہم ترین عضو عطیہ کرنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔
آٹزم میں مبتلا بچے جب نوجوانی میں قدم رکھتے ہیں تو انھیں دنیا ایک جنجال معلوم ہوتی ہے انھیں سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ کیوں خوش ہوتے ہیں یا وہ کیسے پہلی ہی ملاقات میں آپس میں اتنا گھل مل جاتے ہیں۔
آٹزم کی اسپرجرز سینڈروم رکھنے والےبچے عموماً ذہین یا بے حد ذہین ہوتے ہیں۔ جنھیں رنگوں، اشکال اور ریاضی میں مہارت حاصل ہوتی ہے۔ یہ اسکول اور کالج میں ایک ہونہار طالب علم ہو سکتے ہیں یہ زیادہ تر اپنے پسندیدہ موضوعات پر ہی بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ ایک ہی جیسے مشاغل کو روزمرہ کرنے سے بور نہیں ہوتے، اور اپنے پسندیدہ موضوع پر ضرورت سے زیادہ معلو مات اکھٹی کرلیتے ہیں۔ اکثر ان میں یاسیت اور اداسی پیدا ہوجاتی ہے، کیونکہ انھیں اپنے محسوسات کا اظہار کرنا نہیں آتا۔
گو کہ اب تک اس نفسیاتی معذوری کا کوئی علاج دریافت نہیں کیا جاسکا، تاہم آٹزم سے آگاہی کے اداروں اور سرکاری اسپتالوں میں آٹزم سے متعلق معلومات حاصل کی جاسکتی ہے، جس سے بچے کی تربیت کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ایسے بچوں سے آسان اور سادہ الفاظ میں بات کرنا اور چھوٹے چھوٹے فقروں میں بات کرنا ان کے لیے مددگار ہو سکتا ہے، جبکہ کسی بھی سوال کرنے کے بعد جواب کے لیے انھیں وقت دینا بھی انتہائی ضروری ہے۔