والدین کے بغیر تنہا سفر کر کے امریکہ میں داخل ہونے والے تارک وطن بچوں کی کہانیوں پر مبنی ناول ’’لاسٹ چلڈرن آرکائیو‘‘ کو ایک لاکھ یورو کے انعام والے ڈبلن لٹریری ایوارڈ کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔
یہ کتاب مصنفہ ویلیریا لوئیسلی نے 2019میں لکھی تھی، جب انہیں نیویارک کی امیگریشن کورٹ میں ایک مترجم کے طور پر ان بچوں سےمتعلق واقعات کا ذاتی مشاہدہ کرنے کا موقعہ ملا۔
یہ ایوارڈ آئرلینڈ کی ڈبلن سٹی کونسل کی جانب سے دیا جاتا ہے اور اس کے حتمی مرحلے تک پہنچنے والے لکھاریوں کو دنیا بھر کی لائیبریریاں چنتی ہیں۔
اس ناول میں ڈاکیومینٹری بنانے والا ایک جوڑا اپنے بچوں کے ساتھ نیویارک سے امریکہ کی جنوبی سرحد تک سفر کرتا ہے۔ ولیریا نے یہ تجربہ 2014 میں خود کیا تھا۔ ان تجربات کے علاوہ ان کے دیگر سفری مشاہدات کا نتیجہ یہ ناول ہے جو ان تارک وطن بچوں کی کہانیوں کے علاوہ امریکہ کے جنوب مغربی علاقوں سے تعلق رکھنے والے قدیمی باشندوں کی اپاچی ثقافت کی بربادی پر مبنی ہے۔
اپنے ناول کے بارے میں بات کرتے ہوئے ویلیریا نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’’اس ملک (امریکہ) کا سفر کرتے ہوئے مجھے اس ملک میں غیر سمجھی جانے والی آبادیوں کے خلاف ہونے والے سیاسی تشدد پر لکھنے کا خیال آیا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جب وہ چند آبادیوں پر ہونے والے تشدد کے نہ ختم ہونے والے سلسلوں کی تاریخ کو دیکھتی تھیں، خصوصا ایسا تشدد جس کے پیچھے نسل پرستی پوشیدہ تھی، اور امریکہ کے مختلف حصوں میں سفر کرتی تھیں، تو ان کے مشاہدات نے انہیں یہ ناول لکھنے پر آمادہ کیا۔
اس ناول کو دنیا کی کئی لائبریریوں کی جانب سے توصیف اور ستائش مل چکی ہے۔
سینتیس برس کی ناول نگار اپنے اس ناول کی وجہ سے2020 میں ادب کی دنیا کا ایک اور ایوارڈ، اینڈریو کارنیگی میڈل بھی حاصل کر چکی ہیں، جو امریکہ کی لائبریری ایسوسی ایشن نے پیش کیا تھا۔
اس وقت ویلیریا نے بتایا تھا کہ ان کا زیادہ تر وقت خاموش لائبریریوں میں، کتابوں اور پرانے کاغذات کے بیچ گزرتا ہے۔
وہ اس کتاب کی تصنیف سے پہلے دو ہسپانوی ناولوں کا انگریزی میں ترجمہ بھی کر چکی ہیں جن پر انہیں کئی ایوارڈ مل چکے ہیں۔
ویلیریا 1983 میں میکسیکو میں پیدا ہوئیں، انکے والد سفارت کار تھے۔ وہ جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، بھارت اور کئی یورپی ممالک میں رہ چکی ہیں۔ وہ پچھلے 13 برس سے امریکہ میں مقیم ہیں جہاں وہ اس وقت اپنی دوسری بیٹی کی پیدائش کا انتظار کر رہی ہیں۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کی توجہ کا مرکز ہمیشہ میکسیکو رہا ہے۔
ویلیریا نے بتایا کہ امریکہ کا مہاجرین کے لیے مخصوص حراستی مرکز دنیا بھر میں سب سے بڑا ہے اور اس کا حجم 1979 سے اب تک بیس گنا وسیع ہوچکا ہے۔
2019 میں امریکہ میں 70 ہزار مہاجر بچے زیر حراست تھے۔ ان بچوں کو شیلٹرز کے ایک نیٹ ورک میں رکھا جاتا ہے جس کے بارے میں ویلیریا نے کہا کہ یہ نامناسب ہے۔
بقول ان کے بچوں کو ان کے رشتے داروں کے ساتھ رہنے دینے کی بجائے انہیں ان عارضی پناہ کے مراکز میں رکھا جاتا ہے جسے انہوں نے نامناسب قرار دیا۔