تین سالہ ایلان کُردی کی ساحل پر پڑی لاش نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
شام کے شہر کوبانی کا عبدالله کُردی اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ کینڈا اپنی بہن تیما کُردی کے پاس پہنچنے کی کوشش میں اپنی پوری دنیا لٹا بیٹھا۔ عبدالله کشتی میں سوار ہو کر ترکی سے یونان کے جزیرے کوس جا رہا تھا۔
سمندر کی لہرین بپھرنے لگیں تو ترک سمگلر کشتی چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ ایک گھنٹے تک تند و تیز لہروں پر ڈولنے کے بعد، کشتی الٹ گئی۔ کشتی الٹنے کی وجہ سے تمام مسافر سمندر میں گر گئے۔
عبدالله نے اپنے بچوں اور بیوی کو پکڑ کر کشتی کا سہارا لینے کی کوشش کی۔۔ لیکن، ایک ایک کرکے اس کا خاندان اس کے بازو سے پھسلتا گیا۔۔۔ عبدالله نے اپنے خاندان کو ڈھونڈنا شروع کیا تو پہلے اپنے بڑے بیٹے کو دیکھا جو بظاہر ٹھیک تھا، پھر ایلان کو ڈھونڈنا شروع کیا جو ڈوب چکا تھا۔ واپس بڑے بیٹے کے پاس آیا تو وہ بھی ڈوب چکا تھا، عبدالله تو کنارے تک پہنچ گیا۔ لیکن، اس کی بیوی نہ بچ سکی اور ڈوب کر ہلاک ہوگئی۔۔۔۔
اپنی زندگی کے قیمتی ترین اثاثے کھونے کے بعد، عبدالله کُردی اب صرف ان تینیوں کو آخری بار دیکھنا چاہتا ہے۔ ان کی لاشیں واپس کوبانی لے جانا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ دفن ہو جائے۔
عبدالله کی آنکھوں میں اب بہتر زندگی کا خواب نہیں آنسوؤں کا سمندر ہے اور ساحل پر اوندھے منہ پڑی ننھے ایلان کی لاش کچھ سوال چھوڑ گئی ہے۔۔۔ سوال خطے کے ان ترقی یافتہ ممالک کے لیے جو اسد حکومت کو گرانے کے لیے بھرپور کوششیں نہ کرنے کی وجہ سے مغرب سے ناراض ہیں۔ لیکن، خانہ جنگی کے باعث دربدر ہونے والے پناہ گزینوں کو اپنی سرحدوں سے پار نہیں آنے دیتے۔
ایلان کی لاش سوال چھوڑ گئی ہے ان انسانی سمگلروں کے لیے جو ہزاروں ڈالر، پاونڈ یا یورو لے کر بہتر زندگی کی تلاش میں مغرب کا رخ کرنے والے خاندانوں کو بے رحم سمندر میں ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
شام عراق اور لیبیا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کا مسئلہ گزشتہ چند ہفتوں سے اتنا بڑھ گیا ہے کہ یونان اور اٹلی کے جزیروں پر پہنچنے کی خواہش میں کئی پناہ گزین اور مہاجرین اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین یعنی UNHCR کے اعدادوشمار کے مطابق، رواں سال اب تک تین لاکھ افراد بحیرہٴروم کو پار کرنے کی کوشش کر چکے ہیں جن میں شام، عراق، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔
گزشتہ ہفتے آسٹریا میں ایک لاوارث ٹرک کے اندر سے 70 افراد کی لاشیں ملی تھیں جن کی موت دم گھٹنے کی وجہ سے ہوئی۔
ہنگری کے بوداپیسٹ انٹرنیشنل ٹرین سٹیشن پر 2000 سے زائد تارکینِ وطن جرمنی جانے کی خواہش میں دو راتوں تک پھنسے رہے تیسرے روز انہیں جانے کی اجازت ملی تو پہلی ٹرین کو ہی 40 کلومیٹر دور روک دیا گیا اور مسافروں کو زبردستی اتار گیا۔ ہنگری کے وزیرِ اعظم وکٹر اوربان نے کہا ہے کہ پناہ گزین ہنگری نہیں بلکہ جرمنی کا مسئلہ ہیں، کیونکہ وہ سب جرمنی جانا چاہتے ہیں۔
جرمنی اس سال آٹھ لاکھ تارکینِ وطن کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے گا۔
جنگ زدہ ملکوں سے جان بچا کر نکلنے والے پناہ گزین کسی ایک خطے یا ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ تمام ملکوں کا مسئلہ ہیں۔ انہیں روکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے انسانیت کے ناطے انہیں پناہ دینا انسانی حقوق کا تقاضہ ہے۔
تارکینِ وطن سے متعلق ایک فوٹو گیلیری ملاحظہ کیجئیے: