تارکینِ وطن سے متعلق بین الاقوامی تنظیم نے منگل کے روز بتایا ہے کہ بہتر زندگی کی تلاش کی جستجو میں، اس سال مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں کشیدگی اور غربت کے شکار 350000 سے زائد افراد نے بحیرہٴروم کا خطرناک سفر کیا۔
حکومتوں سے وابستہ اس ادارے نے کہا ہے کہ اِن میں سے 234000سے زائد افراد یونان کے ساحل پر اترے، مزید 114000 اٹلی پہنچے، جب کہ کم تعداد میں تارکین وطن اسپین اور مالٹا پہنچے۔ تقریباً 2600 ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں زیادہ تر ڈوبنے کے نتیجے میں فوت ہوئے۔ وہ جِن کشتیوں میں سوار تھے وہ پرانی تھیں اوراُن میں گنجائش سے زیادہ لوگ سوار تھے۔ یہ انسانی اسمگلنگ کی خوفناک داستان ہے، جو اُن کے ڈوبنے کا سبب بنا۔
یہ تازہ ترین اعداد و شمار ایسے میں سامنے آئے ہیں جب جنگ عظم دوئم کے بعد تارکین وطن کی بڑی تعداد ایک مقام سے دوسرے کی جانب منتقل ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔
ہنگری میں، حکام نے بداپیسٹ کے اہم ریلوے اسٹیشن کو پہلے بند کیا، پھر اُسے کھول دیا۔ تاہم، سینکڑوں تارکینِ وطن جِن میں سے زیادہ تر کا تعلق مشرق وسطیٰ کے اُس خطے سے ہے جو تنازع کےباعث کشیدگی کا شکار ہے، جہاں کئی افراد حکام سے تقاضا کر رہے ہیں کہ اُنھیں آسٹریا اور جرمنی کی ریل گاڑیوں میں سوار ہونے کی اجازت دی جائے۔
ہنگری یورپی یونین کی جانب جانے کے خواہش مند تارکین وطن کے داخلے کا پہلا مقام ہے، اور اس سال 156000سے زائد لوگ اب تک ہنگری آچکے ہیں۔
تاہم، تارکین وطن کی یلغار کوروکنے کے لیے، بداپیسٹ سربیا کے ساتھ والی اپنی جنوبی سرحد پر ایک لمبی باڑ نصب کر رہا ہے۔