جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں 27 اکتوبر کو ’آزادی مارچ‘ کا اعلان کر دیا ہے۔ لیکن اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں اس مارچ میں شرکت سے متعلق اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکی ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کو خوش آئند قرار دیا لیکن اس میں شرکت کے حوالے سے معاملہ کور کمیٹی پر ڈال دیا ہے، جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی ابھی تک ’آزادی مارچ‘ میں شرکت کے حوالے سے کوئی حتمی اعلان نہیں کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کے اعلان کے بعد اس ممکنہ احتجاج کے حوالے سے کئی ایسے اہم سوالات ہیں جن کے جوابات ملنا باقی ہیں۔ مثلاً اس احتجاج کی قیادت کون کرے گا؟ کیا یہ احتجاج صرف مارچ تک ہی محدود رہے گا یا پھر ڈی چوک میں دھرنا بھی دیا جائے گا؟ اور کیا مولانا فضل الرحمٰن اس احتجاج سے کوئی فائدہ اٹھا سکیں گے؟
تجزیہ کار مظہر عباس نے ان سوالات سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن ہر حال میں احتجاج کرنا چاہتے ہیں۔ مظہر عباس کے بقول، مولانا فضل الرحمٰن یہ سمجھتے ہیں کہ احتجاج کے بغیر آئندہ سال خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں انہیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مظہر عباس کے مطابق، مولانا فضل الرحمٰن حکومت پر دباؤ بڑھا کر ریلیف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریکِ انصاف کی کامیابی کے بعد مولانا کا خیال ہے کہ گزشتہ الیکشن میں ان سے کئی نشستیں لی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب مولانا ہر حال میں کم سے کم خیبر پختونخوا میں اپنا حصہ چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے اگر سسٹم بھی چلا جاتا ہے تو جائے۔
تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی احتجاج میں شرکت سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ دونوں بڑی جماعتیں مناسب وقت کا انتظار کر رہی ہیں۔
ان کے بقول، دونوں جماعتوں کی سوچ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کو آگے رکھا جائے اور اگر احتجاج سے کوئی مثبت صورتِ حال بن رہی ہو تو وہ اس میں شامل ہوجائیں۔
اس احتجاج کے حوالے سے حکومت کی طرف سے بھی کئی اعلانات کیے جا چکے ہیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ کسی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے۔
تجزیہ کار رسول بخش رئیسں کہتے ہیں کہ اگر یہ احتجاج ناکام ہوا تو یہ لوگ خول میں چلے جائیں گے یا پھر تصادم کا راستہ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، لاشوں کی سیاست بھی کی جا سکتی ہے جو ملک کے لیے نقصان دہ ہو گی۔
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ابھی کنفیوژن کا شکار ہیں۔ لیکن، ان دونوں جماعتوں کے پاس بھی کوئی چوائس نہیں ہے۔
مظہر عباس کے بقول، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا خیال ہے کہ اگر عمران خان کو پانچ سال مل گئے تو دونوں جماعتوں کو بہت زیادہ نقصان ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان دباؤ میں آنے والے نہیں ہیں۔
مظہر عباس کے مطابق اگر حالات خراب ہوئے تو کوئی غیر آئینی اقدام بھی ہوسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی ایسی کسی بھی صورتِ حال کا الزام خود پر نہیں لینا چاہتی۔ لیکن پیپلز پارٹی میں یہ سوچ بھی ہے کہ اگر کل کو سندھ میں ان کے ساتھ کچھ برا ہوا تو مولانا ان کی حمایت میں کھڑے نہیں ہوں گے۔
اس سوال کے جواب میں کہ احتجاج کی ناکامی کی صورت میں کیا ہو گا؟ مظہر عباس کا کہنا تھا کہ اس کا فائدہ عمران خان کو ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ سال بلدیاتی انتخابات ہونے ہیں اور اپوزیشن کی ناکامی کی صورت میں فائدہ عمران خان اٹھائیں گے۔