سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کرتے ہوئے اسے کراچی میں کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن عمل درآمد کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے 460 ارب روپے جمع کروانے کی پیشکش قبول کرتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو کام کرنے کی اجازت دے دی۔
سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو بحریہ ٹاؤن کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے روکتے ہوئے فیصلہ دیا کہ بحریہ ٹاؤن اپنے پلاٹس فروخت کر سکتا ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ بحریہ ٹاؤن 460 ارب روپے کی رقم 7 سال میں ادا کرے گا۔ اقساط میں تاخیر پر بحریہ ٹاؤن 4 فیصد سود ادا کرنے کا پابند ہو گا۔ رقم سپریم کورٹ میں جمع کروائی جائے گی۔
فیصلے کے مطابق نیب کو سندھ حکومت یا بحریہ ٹاؤن کے خلاف آئندہ کوئی بھی کیس دائر کرنے سے قبل پہلے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر کے اجازت لینی ہو گی۔
دوران سماعت جسٹس عظمت سعید نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر سے پوچھا کہ ڈاؤن پیمنٹ 20 ارب ادا کرنی ہے یا 25 ارب روپے؟
علی ظفر نے کہا کہ 25 ارب روپے ہی کر دیں۔ اس پر عدالت نے 27 اگست تک ڈاؤن پیمنٹ 25 ارب روپے جمع کرانے کا حکم دیا۔
ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے درخواست کی کہ جب تک یہ عمل چلے گا نیب کارروائی روکی جائے۔ جسٹس عظمت سعید نے نیب کو اپنی کارروائی روکنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ نیب کی جانب سے کوئی ریفرنس دائر نہیں ہو گا، کوئی مسئلہ ہو تو عدالت موجود ہے۔ رقم نہیں آئے گی تو پھر دیکھیں گے۔ نیب ریفرنس دائر کرنے سے پہلے عدالت سے اجازت لے۔ نیب اگر کسی اور کیے خلاف ریفرنس دائر کرنا چاہتا ہے تو درخواست دے۔
ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ یہ رقم سندھ حکومت کو دی جائے۔ اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ پہلے پیسے آنے دیں جھگڑا نہ ڈالیں۔ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ پتا ہے سندھ حکومت کتنے پر راضی ہوئی۔
بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے ہزاروں ایکڑ زمین سندھ حکومت کے بعض افسران کی ملی بھگت سے بحریہ ٹاؤن کے حوالے کرنے کا الزام تھا، جس پر عدالت نے گزشتہ سال جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کراچی میں ہزاروں کنال اراضی کو غیر قانونی طریقے سے منتقل کرنے کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے نیب کے حکام کو بحریہ ٹاون اور متعلقہ سرکاری ملازمین کے خلاف تحقیقات کرنے اور ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔
بعد ازاں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بحریہ ٹاؤن کو تمام کیسز ختم کرنے لیے ایک ہزار ارب روپے جمع کرانے کا آپشن دیا تھا، جس پر بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے یہ رقم ادا کرنے سے معذوری ظاہر کی تھی۔
سپریم کورٹ میں عمل درآمد بینچ نے اب بحریہ ٹاؤن کو پلاٹس کی خرید و فروخت کی اجازت دے دی ہے جس کے بعد بحریہ ٹاؤن نے ٹرانسفر فوری طور پر کھولنے کا اعلان کیا ہے۔
سپریم کورٹ کی یہ پیشکش صرف کراچی کے بحریہ ٹاؤن کے لیے ہے۔ اسلام آباد، مری اور راول پنڈی میں ابھی بھی بحریہ ٹاؤن کے خلاف اربوں روپے کی سرکاری زمین قبضے میں لینے کے مقدمات موجود ہیں۔