سپریم کورٹ آف پاکستان نے 190 ملین پاؤنڈ کی رقم بحریہ ٹاؤن کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں ایڈجسٹ کرنے پر سوال اُٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بحریہ ٹاؤن کراچی کے پاس لے آؤٹ پلان نہیں تھا تو پھر سارا منصوبہ ہی غیر قانونی ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں سات درخواستوں پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ بحریہ ٹاون نے جو رقوم جمع کرائیں وہ آئیں کہاں سے؟
چیف جسٹس نے سوال اُٹھایا کہ کیا یہ درست ہے کہ بیرون ملک ضبط ہونے والی رقم بھی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی؟ اس پر بحریہ ٹاؤن کا کہنا تھا کہ وہ سب ایک معاہدے سے ہوا تھا۔
خیال رہے کہ برطانیہ میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کی مبینہ طور پر کرپشن کی رقم کو برطانوی حکام نے پاکستان کے حوالے کیا تھا۔ 190 ملین پاؤنڈ کی یہ رقم سرکاری خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی تھی۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور اُن کی کابینہ کے ارکان پر یہ الزام ہے کہ بحریہ ٹاؤن سے ملی بھگت کے ذریعے یہ رقم سرکاری خزانے کے بجائے سپریم کورٹ میں منتقل کی گئی، یہ معاملہ بھی احتساب عدالت میں چل رہا ہے۔
بحریہ ٹاؤن کراچی پر ہزاروں ایکڑ زمین سندھ حکومت کے بعض افسران کی ملی بھگت سے بحریہ ٹاؤن کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔
سن 2018 میں جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نیب حکام کو بحریہ ٹاؤن اور متعلقہ سرکاری ملازمین کے خلاف تحقیقات کرنے اور ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس معاملے پر بحریہ ٹاؤن نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ 2019 میں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی 460 ارب روپے کی پیش کش قبول کرتے ہوئے اسے کراچی میں کام کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
عدالت نے قومی احتساب بیورو کو بحریہ ٹاؤن کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے روکتے ہوئے فیصلہ دیا کہ بحریہ ٹاؤن اپنے پلاٹس فروخت کر سکتا ہے۔
عدالت نے حکم دیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن 460 ارب روپے کی رقم سات سال میں ادا کرے گا۔ اقساط میں تاخیر پر بحریہ ٹاؤن چار فی صد سود ادا کرنے کا پابند ہو گا۔
درخواست نظرِثانی کی ہے یا توہین عدالت کی؟
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے وکیل بحریہ ٹاؤن سلمان اسلم بٹ سے استفسار کیا کہ آپ کی متفرق درخواستیں کیا ہیں؟ آپ سپریم کورٹ کے کون سے حکم میں تبدیلی چاہتے ہیں؟ آپ کی درخواستیں ڈھائی سال تک مقرر کیوں نہ ہوئیں؟
اس پر وکیل بحریہ ٹاون نے کہا کہ اقساط جمع کرانے میں ایک سال کی رعایت کے لیے درخواست 2021 میں دائر کی تھی۔
سلمان بٹ نے بتایا کہ جلد سماعت کی کوئی درخواست دائر نہیں کی تھی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ تاخیر سے درخواست مقرر ہونے پر کارروائی کرنا چاہتے ہیں؟ آپ متعلقہ آفس پر الزام لگائیں ہم تحقیقات کریں گے۔
اس پر سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ مقدمات عدالت خود مقرر کرتی ہے وکیل کا کوئی کردار نہیں ہوتا، مقدمات مقرر کرنا عدالت کا اندرونی معاملہ ہے، کسی پر الزام نہیں لگانا چاہتا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حیرت ہے آپ کارروائی ہی نہیں چاہتے۔ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے ہم اپنے طور پر کارروائی کریں گے۔
سلمان اسلم بٹ نے اپنی متفرق درخواستوں کے حوالے سے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کو 16 ہزار 896 ایکڑ زمین الاٹ ہونا تھی لیکن صرف 11 ہزار ایکڑ الاٹ ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ "ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ نظرِثانی بھی نہیں تو پھر آپ کیا چاہ رہے ہیں؟ مجھے بتائیں ابھی ہم کس دائرہ اختیار میں آپ کو سن رہے ہیں؟"
اس پر سلمان اسلم نے کہا کہ آپ آرٹیکل 184 تھری میں مجھے سن رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جی نہیں ہم تو آپ کی درخواستیں سن رہے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ آپ بتائیں ٹوٹل اقساط میں سے کتنی ادا کی گئیں؟ جس پر سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ میں اقساط کی ادائیگیوں کا چارٹ پیش کر دوں گا۔
'سندھ حکومت نے بحریہ ٹاؤن کو پوری زمین نہیں دی'
اقساط کے بارے میں سوال جواب کا سلسلہ جاری تھا کہ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے آخری قسط کب ادا کی گئی تھی؟ جس پر بتایا گیا کہ آخری قسط 2022 میں ادا کی گئی تھی۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کو کسی ریونیو افسر نے خط لکھا کہ ان کے پاس زمین نہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ اس خط کو ٹوکری میں پھینک دیں، آپ سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل درآمد کی درخواست لے آئیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب فیصلہ آیا تو بحریہ ٹاؤن کی نمائندگی کون کر رہا تھا؟ جس پر بتایا گیا کہ اس وقت بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر تھے، اس سے پہلے اعتزاز احسن بھی ان کے وکیل تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تو کیا ملک کے دو بڑے وکیلوں کو فیصلہ سمجھ نہیں آیا تھا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے سلمان اسلم بٹ سے کہا کہ آپ فیصلہ پورا نہیں پڑھ رہے ہیں، فیصلے میں لکھا تھا کہ اگر عمل نہ ہوا تو نیب ریفرنسز دائر کرے گا۔ آپ کے پاس راستہ یہی ہے کہ نیب ریفرنس دائر کرے، ہم اب سپریم کورٹ کے فیصلے میں ترمیم کیسے کریں؟
وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ عمل در آمد بینچ کا اراضی کی قیمت کا تعین غیر آئینی ہے جس پر جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ عمل درآمد بینچ نے آپ کی رضا مندی سے آرڈر پاس کیا تھا۔
سلمان اسلم نے کہا کہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے پانچ ہزار ایکڑ زمین دینے سے انکار کیا۔ اتھارٹی کہتی ہے ہمارے پاس بحریہ کو دینے کے لیے زمین نہیں ہے۔
'دو قسطوں کے بعد تیسری قسط نہ دینے پر ڈیفالٹ ہو گا'
سماعت میں وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ ہمیں پوری زمین نہیں دی گئی، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ادائیگی کرنے کا عدالتی حکم ہے۔ عدالتی فیصلے میں لکھا ہے کہ دو اقساط نہ دینے پر تیسری قسط پر ڈیفالٹ ہو گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم فریقین کو نوٹس کر دیتے ہیں اس معاملے پر بھی ہو سکتا ہے آپ کا بھلا ہو جائے اور بحریہ ٹاؤن والے آپ کو اس معاملے پر بھی وکیل کر لیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا بحریہ ٹاؤن منصوبہ مکمل ہوچکا ہے، کیا لوگ وہاں پر رہ رہے ہیں؟
اس پر سلمان بٹ نے بتایا کہ منصوبے پر 50 فی صد کام ہو چکا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ بحریہ ٹاؤن کا منظور شدہ لے آؤٹ سائٹ پلان کہاں ہے؟ زمین نہیں تھی، لے آؤٹ پلان نہیں تھا تو منصوبے پر کام شروع کیسے کیا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ منصوبے پر 50 فی صد کام بغیر منظوری کے کر لیا؟ بغیر منظوری کے منصوبے پر کام شروع ہونا غیر قانونی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر لے آؤٹ پلان نہیں ہے تو پھر بحریہ ٹاؤن کا سارا منصوبہ غیر قانونی ہے۔
اس پر سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ لے آؤٹ پلان سے متعلق دستاویزات عدالت میں جمع کرا دوں گا۔
عدالت نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے بحریہ ٹاؤن کو دی گئی تمام منظوریوں کی تفصیلات مانگ لیں، اس کے ساتھ ساتھ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے بھی بحریہ ٹاؤن کو دی گئی منظوریوں کی تفصیلات طلب کرلی گئیں۔
عدالت نے اس معاملے میں سندھ حکومت اور دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت آٹھ نومبر تک ملتوی کر دی۔
فورم