پشاور ہائی کورٹ نے وزارتِ عظمٰی کے لیے نامزد ایک اُمیدوار سابق وفاقی وزیر شہاب الدین کی جانب سے جمعہ کو داخل کی گئی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست قبول کر لی ہے۔
پیپلز پارٹی نے جمعرات کو اُنھیں وزیرِ اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد راولپنڈی کی انسداد منشیات کی ایک عدالت نے ’ایفیڈرین‘ درآمد کے مقدمے میں ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
وزارت عظمٰی کے لیے نامزدگی کے بعد توجہ کا مرکز بننے والے شہاب الدین جب جمعہ کو پشاور ہائی کورٹ پہنچے تو ان کے ہمراہ ان کے وکیل کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا، جب کہ اس کے برعکس ایک روز قبل پارلیمان میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے قبل اور بعد میں ان کے گرد اپنی پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کا جھرمٹ تھا۔
اس اچانک تبدیلی کی بظاہر وجہ ایوان میں اکثریتی جماعت کی جانب سے راجہ پرویز اشرف کو اپنا حتمی امیدوار نامزد کرنا ہے۔
عبوری ضمانت کی منظوری کے بعد شہاب الدین نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے مختصر بات چیت میں کہا کہ ’’2011ء میں ’ایفیڈرین کیس‘ بنا، میری گرفتاری کے وارنٹ کل نکلے آپ خود اندازہ کر لیں۔ اگر میں نامزد نا ہوتا تو میرے خلاف کوئی کارروائی نا ہوتی۔‘‘
شہاب الدین پر الزام ہے کہ اُنھوں نے بطور سابق وزیر صحت اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے بعض دوا ساز کمپنیوں کو مقررہ کوٹے سے زائد ’ایفیڈرین‘ کی درآمد کی اجازت دی۔
عدالت نے ایفیڈرین کوٹہ کیس ہی میں معزول وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے اور رکن قومی اسمبلی علی موسیٰ گیلانی کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے ہیں۔ مخدوم شہاب الدین اور علی موسٰی گیلانی دونوں ان الزامات کی نفی کر چکے ہیں۔