جامعہ کراچی میں 26اپریل کو ہونے والے خود کش دھماکےکی تفتیش کے سلسلے میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حراست میں لیے جانے والے بلوچ طالبِ علم بیبگر امداد بلوچ کو رہا کردیا گیا ہے۔بلوچ کونسل کے رکن نے دعویٰ کیا ہے کہ سیکیورٹی اداروں نے بیبگر کی رہائی کے لیے عدالت میں دائر کی گئی پٹیشن واپس لینے کی شرط پر اُنہیں رہا کیا۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی میں بلوچ کونسل کے صدر سلام بلوچ نے بیبگر کی رہائی کی تصدیق کی ہے جب کہ بیبگر کے وکیل حیدر علی بٹ نے بھی بیبگر کی واپسی کے بعد کی تصویر شیئر کی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ میں پنجاب یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی افسر کرنل ریٹائرڈ عبداللہ نے کہا تھا کہ بیبگرامداد بلوچ کوکراچی میں ہونے والے خودکش دھماکے کی تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا۔وہ اغوا نہیں ہوئے بلکہ تفتیش کے لیے زیرحراست ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق ندیم نے پولیس سے طالب علم کو حراست میں لیے جانے کا ریکارڈ طلب کیا تھا اور کہاتھا کہ ہائی کورٹ کو دیکھنا ہے کہ پولیس نے طالب علم کی گرفتاری کب کی اور اِسے روزنامچے میں کب درج کیا ؟
عدالت کے حکم پر سی سی پی او لاہور نے بلوچ طالب علم کو مبینہ طور پر حراست میں لیے جانے کی رپورٹ عدالت میں پیش کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابقبیبگر بلوچ کو اغوا نہیں کیا گیا تھا بلکہ تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا تھا۔
بعد ازاں منگل کو جسٹس طارق ندیم نے بیبگر بلوچ کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔ اس دوران جامعہ پنجاب کی جانب سے چیف سیکیورٹی افسر کرنل ریٹائرڈ عبداللہ عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے چیف سیکیورٹی افسر کو مؤقف تحریری طور پر عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی۔ دوران سماعت ایس پی اقبال ٹاؤن عمارہ شیرازی عدالت میں پیش ہوئیں اور کہا کہ ہمیں سندھ پولیس اور محکمۂ داخلہ سندھ کی جانب سے جامعہ پنجاب میں کارروائی سے متعلق پیشگی نہیں بتایا گیا تھا۔علاوہ ازیں عدالت نے سماعت بیس مئی تک ملتوی کردی۔
بیبگر امداد بلوچ کیسے رہا ہوئے؟
قائداعظم یونیورسٹی کےطالب علم اور بلوچ کونسل سے وابستہ سلام بلوچ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بیبگر بلوچ کو پنجاب یونیورسٹی سے جب اٹھایا گیا تھا تو ان کی رہائی کے لیے ایک پٹیشن بھی دائر کی گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس یا کسی ادارے کے پاس بیبگر کی گرفتاری یاانہیں حراست میں لیے جانے کے حوالے سے کوئی مقدمہ یا وارنٹ نہیں تھا۔
ان کے بقول پیر کی شام قانون نافذ کرنے والے اداروں نے لاہور میں بلوچ طلبہ کو بلایا اور کہا کہ اگر ان کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں دائر پٹیشن واپس لے لی جائے تو بیبگر کو ان کے حوالے کر دیا جائے گا جس پر انہوں نے رضامندی ظاہر کی اور بیبگر بلوچ کو ان کے حوالے کردیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ منگل کو ہونے والی سماعت کے بعد بھی بلوچ طلبہ سے رابطہ کیا گیا ہے اور پٹیشن واپس لینے کے لیے کہا جارہا ہے جس کے بعد اس پر کام جاری ہے۔
سلام بلوچ نے کہا کہ ایسا اقدام بلوچ طلبہ کے مستقبل سے کھیلنا ہے۔ ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ بیبگر واپس آگیا ہے۔ مگر دکھ یہ ہے کہ اسے کسی جرم میں ملوث نہ ہونے کے باوجود محض شک کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا اور اسے 27 اپریل سے پیر کی رات تک بغیر کسی کیس میں انہیں حراست میں رکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بیبگر کا طبی معائنہ کرایا گیا ہے لیکن وہ ابھی بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
بلوچ طلبہ کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ کو اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ ''ایک بے گناہ طالب علم کو 13 دن تک کسی مقدمہ کے بغیر کس وجہ سے حراست میں رکھا گیا۔
ایمان مزاری کے بقول اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ سب بلوچ طلبہ خوفزدہ ہیں کہ انہیں کبھی بھی کلاس روم یا کیمپس سے اٹھایا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہبلوچ طلبہ کے بارے میں اسلام آباد، لاہور اور بلوچستان کی ہائی کورٹس میں پٹیشنز زیر سماعت ہیں۔ گزشتہ دنوں وزارت داخلہ کے حکام اور صدر مملکت سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔ ہم انتظار کررہے ہیں کہ حکومت اس حوالے سے کیا عملی اقدام اٹھاتی ہے۔
پس منظر
اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی کے طالب علم بیبگر بلوچ کو 27 اپریل کو پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹل سے گرفتار کیا گیا تھا۔ان کے بارے میں یہ شک ظاہر کیا جا رہا تھا کہ وہ کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے خودکش دھماکے کے مبینہ سہولت کار تھے اور ایک روز قبل ہی کراچی سے لاہور پہنچے تھے۔
بیبگر کوحراست میں لیے جانے کے وقت مختلف ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر سامنے آئی تھیں جن میں کچھ افراد انہیں 'ویگو' گاڑی میں ڈالتے ہوئے دیکھے گئے تھے۔
خیال رہے کہ کراچی یونیورسٹی میں 26 اپریل کو چینی زبان سکھانے والے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے باہر ایک خاتون نے خود کش دھماکہ کیا تھا جس کے نتیجے میں انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر سمیت تین چینی اساتذہ اور پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہوئے تھے۔ واقعے میں ایک چینی اور ایک پاکستانی زخمی بھی ہوئے۔
بلوچستان کی علیحدگی پسند کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے واقعے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ پولیس نے چینی اساتذہ پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کے لیے چار رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
اگرچہ بیبگر کی حراست کے بارےمیں سرکاری سطح پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا تھا ۔ تاہم دو روز قبل محکمۂ انسداد دہشت گردی پنجاب اور یونیورسٹی انتظامیہ نے بیبگر کو حراست میں لیے جانے کی تصدیق کی تھی ۔
بلوچ طلبہ کے خدشات پر چند روز قبل وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت جماعتی مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر مملکت محسن شاہنواز رانجھا نے کہا تھا کہ کراچی یونیورسٹی حملے کے تناظر میں بلوچ طلبہ کو خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
اُن کا موؐقف تھا کہ حکومت ایسا لائحہ عمل طے کرنے والی ہے جس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے سیکیورٹی سے متعلق خدشات کا سدِباب ہو سکے گا۔