بلوچستان میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جعفرآباد سے اغواء کیے گئے ہندو برادری کے دو بچوں کو بازیاب کرانے کے لیے کوششیں جاری ہیں جبکہ مبینہ اغواء کار کے قریبی ساتھیوں کو حراست میں لے کر ان سے تفتیش بھی شروع کر دی گئی ہے۔
جمعرات کو جعفرآباد سے ہندو برادری کی تین کم سن بچیوں سمیت پانچ بچوں کو انھیں اسکول لے جانے والے ڈرائیور نے مبینہ طور پر اغواء کر لیا تھا اور بعد ازاں اغواء کی گئی تین بچیوں کو سندھ کے علاقے رتو ڈیرو لے جاکر چھوڑ دیا۔
جعفرآباد کے ضلعی پولیس افسر سید اشفاق انور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وارث بگٹی نامی ڈرائیور نے مبینہ طور پر ان بچوں کو اسکول لے جاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اغواء کیا۔
"ابھی تفتیش کر رہے ہیں وارث بگٹی سے متعلق معلومات اکٹھی کر رہے ہیں اس کے رشتے داروں اور دوستوں سے پھر بگٹی قبیلے کے کچھ لوگ بھی ہیں۔۔۔بچیاں تو رتوڈیرو سے ملی ہیں تو خیال یہی ہے کہ بچے بھی وہیں پر ہوں گے، کوششیں جاری ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں مقیم ہندو برادری کو بھی اس معاملے پر اعتماد میں لیا گیا ہے اور ان کے بقول یہ لوگ پولیس کی تفتیش سے مطمیئن ہیں۔
بلوچستان میں صدیوں سے آباد ہندو برادری کی طرف سے حالیہ مہینوں میں اغواء برائے تاوان اور ہدف بنا کر قتل کیے جانے کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بلوچسان میں آباد تمام مذاہب اور قومیت کے لوگوں کے تحفظ کے لیے بھرپور اقدامات کر رہی ہے اور اسی بنا پر منظم جرائم کے واقعات میں ماضی کی نسبت کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
دریں اثناء بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں جمعرات کو خواتین کے لیے مخصوص 2332 نشستوں میں سے 1082 پر ووٹ ڈالے گئے۔ باقی نشستوں پر امیدوار پہلے ہی بلا مقابلہ منتخب ہو چکی ہیں۔
اسی طرح اقلیتی برادری کے لیے مخصوص 743 نشستوں میں سے 157 پر امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہو چکے ہیں جب کہ 513 نشستوں پر بعد میں انتخاب کروائے جانے کے اعلان کے بعد 73 سیٹوں پر اقلیتی امیدواروں کے لیے لوگوں نے ووٹ ڈالے۔
جمعرات کو جعفرآباد سے ہندو برادری کی تین کم سن بچیوں سمیت پانچ بچوں کو انھیں اسکول لے جانے والے ڈرائیور نے مبینہ طور پر اغواء کر لیا تھا اور بعد ازاں اغواء کی گئی تین بچیوں کو سندھ کے علاقے رتو ڈیرو لے جاکر چھوڑ دیا۔
جعفرآباد کے ضلعی پولیس افسر سید اشفاق انور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وارث بگٹی نامی ڈرائیور نے مبینہ طور پر ان بچوں کو اسکول لے جاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اغواء کیا۔
"ابھی تفتیش کر رہے ہیں وارث بگٹی سے متعلق معلومات اکٹھی کر رہے ہیں اس کے رشتے داروں اور دوستوں سے پھر بگٹی قبیلے کے کچھ لوگ بھی ہیں۔۔۔بچیاں تو رتوڈیرو سے ملی ہیں تو خیال یہی ہے کہ بچے بھی وہیں پر ہوں گے، کوششیں جاری ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں مقیم ہندو برادری کو بھی اس معاملے پر اعتماد میں لیا گیا ہے اور ان کے بقول یہ لوگ پولیس کی تفتیش سے مطمیئن ہیں۔
بلوچستان میں صدیوں سے آباد ہندو برادری کی طرف سے حالیہ مہینوں میں اغواء برائے تاوان اور ہدف بنا کر قتل کیے جانے کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بلوچسان میں آباد تمام مذاہب اور قومیت کے لوگوں کے تحفظ کے لیے بھرپور اقدامات کر رہی ہے اور اسی بنا پر منظم جرائم کے واقعات میں ماضی کی نسبت کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
دریں اثناء بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں جمعرات کو خواتین کے لیے مخصوص 2332 نشستوں میں سے 1082 پر ووٹ ڈالے گئے۔ باقی نشستوں پر امیدوار پہلے ہی بلا مقابلہ منتخب ہو چکی ہیں۔
اسی طرح اقلیتی برادری کے لیے مخصوص 743 نشستوں میں سے 157 پر امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہو چکے ہیں جب کہ 513 نشستوں پر بعد میں انتخاب کروائے جانے کے اعلان کے بعد 73 سیٹوں پر اقلیتی امیدواروں کے لیے لوگوں نے ووٹ ڈالے۔