بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مون سون کی بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ پی ڈی ایم اے بلوچستان کے مطابق صوبے کے علاقوں ژوب، نصیر آباد، آواران، ڈیرہ بگٹی، قلعہ سیف اللہ، خضدار، جھل مگسی، پشین اور کیچ میں 19 جولائی سے اب تک 11 افراد ہلاک جب کہ 13 زخمی ہو چکے ہیں۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کے علاقوں خاران اور واشک میں سیلاب سے سب سے زیادہ تباہی ہوئی ہے جس سے سینکڑوں مکانات جزوی یا مکمل طور پر منہدم ہو گئے ہیں۔
گزشتہ سال بھی مون سون کے سیزن میں بلوچستان میں طوفانی بارشوں اور سیلاب سے متعدد اضلاع میں بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوا تھا جن میں سے بعض علاقوں میں ابھی تک متاثرین کی بحالی کا عمل مکمل نہیں ہوسکا۔
خاران اور واشک کے سیلاب متاثرین نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ وہ گزشتہ 3 روز سے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جب کہ ان علاقوں میں گندم، پیاز اور کھجور کی فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
ایک متاثرہ شخص عابد حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تین روز قبل واشک کے کئی علاقوں میں بارشوں کے بعد سیلاب آیا جس میں تین سے چار سو مکانات مکمل یا جزوی طور پر گر گئے۔
عابد حسین کے بقول سیلاب میں ان کا بھی گھر بہہ گیا ہے اور والدین اور گھر کے دیگر افراد نے ہمسایوں کے گھر میں پناہ لی ہے جن کے مکان سیلاب سے بچ گئے ہیں۔ علاقے میں کئی لوگوں کے مال مویشی بھی سیلاب میں بہہ گئے ہیں اور گندم کی کھڑی فصلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ واشک کے لوگوں کی اکثریت کا گزر بسر کھجور کے باغوں پر ہے۔ حالیہ سیلاب میں کھجور کے باغوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ حکومت کی جانب سے تاحال سیلاب متاثرین کی کوئی امداد نہیں کی گئی۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت چندہ کرکے متاثرین کے لیے کھانے پینے کا انتظام کر رہے ہیں۔
واشک کے ایک اور رہائشی محمد ایوب بلوچ نے بتایا کہ واشک کے ڈیم کے حفاظتی بندوں کو پہلے ہی توڑا گیا تھا جس کی وجہ سے پانی شہری علاقوں میں داخل ہو گیا اور سینکڑوں لوگوں کو نقصان پہنچا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے ا ور متاثرین کو ان نقصانات کا معاوضہ فراہم کرے۔
واشک اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء نے اپنی مدد آپ کے تحت کوئٹہ پریس کلب کے باہر امدادی کیمپ قائم کیا ہے اور صوبائی حکوت، غیر سرکاری اداروں اور مخیر حضرات سے امداد کی اپیل کی ہے۔
بلوچستان میں حالیہ بارشوں سے بلوچستان اور سندھ کی قومی شاہراہ پنجرہ پل کے قریب گزشتہ 5 روز سے بند ہے۔ تاہم نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے پنجرہ پل کو عارضی طور پر چھوٹی گاڑیوں کے لیے کئی بار کھولا ہے۔
بھاگ سے کوئٹہ آنے والے ایک تاجر محمد انور نے بتایا کہ بولان میں پنجرہ پل گزشتہ سال بارشوں سے تباہ ہو گیا تھا جسے تاحال مکمل طور پر بحال نہیں کیا جا سکا۔
انہوں نے کہا کہ انتظامیہ نے درہ بولان میں عارضی راستہ بنا رکھا ہے مگر جب بھی بارشیں ہوتی ہیں اور دریا میں پانی زیادہ ہوتا ہے تو عارضی گزرگاہ میں بھی پانی بھر جاتا ہے جس کے باعث قومی شاہراہ کے دونوں جانب سینکڑوں گاڑیاں پھنس جاتی ہیں اور شدید گرمی میں خواتین اور بچوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
واضح رہے کہ پنجرہ پل کی ایک سال سے تعمیر نہ ہونے کے معاملے پر بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے بھی گزشتہ دنوں شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ این ایچ اے حکام سیلابی ریلوں کی وجہ سے شاہراہوں کی بندش کے بعد ٹریفک کی بحالی کیلئے فوری اقدامات کریں اور پنجرہ پل کی جلد ازجلد تعمیر شروع کی جائے ۔
پی ڈی ایم اے حکام کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریلیف اور امدادی سامان کی تقسیم کا عمل جاری ہے اب تک سیلاب میں پھنسے 100 سے زائد افراد کو بچا لیا گیا ہے جب کہ متاثرہ علاقوں میں پی ڈی ایم اے کی ٹیموں نے ضلعی انتظامیہ کی مدد سے متاثرین میں ایک ہزار چار سو ٹینٹ، 14 سو چٹائیاں، 60 واٹر ٹینک اور راشن تقسیم کیا ہے۔
ادھر حب ڈیم میں پانی کی سطح میں مسلسل اضافے کے بعد ملحقہ علاقوں کے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کے لیے الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔
فورم