بلوچستان میں حکام نے کالعدم عسکریت تنظیموں کے خلاف سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں قابل ذکر کامیابی حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ کا علیحدگی پسند سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر مارا جا چکا ہے۔
منگل کو کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ضلع آواران کے علاقے میں سکیورٹی فورسز نے حالیہ دنوں میں متعدد آپریشن کیے جن میں سے ایک کے دوران اللہ نذر بھی مارا گیا۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس ہلاکت کی تاحال انٹیلی جنس ذرائع سے تصدیق ہونا باقی ہے۔
"غیر مصدقہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اس کے زندہ رہنے کے کوئی ثبوت نہیں آرہے ہیں جب سے فرنٹیئر کور نے چند ایک آپریشن کیے تھے اس کے بعد سے اس کی زندگی کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔۔اگر وہ (اللہ نذر) زندہ ہے تو اس کوئی ثبوت فراہم کرے۔"
اللہ نذر کی تنظیم آواران اور مکران کے علاقے میں سرگرم ہے جہاں یہ سکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات پر حملوں کے علاوہ دیگر صوبوں سے مزدوری کے لیے آنے والوں کے اغوا اور قتل کی ذمہ داری کرتی رہی ہے۔
سرفراز بگٹی نے مزید بتایا کہ دالبدین کے علاقے میں سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے عسکریت پسندوں کے مواصلاتی نظام کو بھی ناکارہ بنا دیا ہے۔
"یہ دالبدین میں بلند و بالا پہاڑ کی چوٹی پر قائم تھا جہاں وائرلیس کے سگنلز کی وسعت کو مزید بڑھا کر ایک سو سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور سرحد اور سرحد بھیجا جا تا تھا"۔
بلوچستان کی حکومت نے علیحدگی پسند مزاحمت کاروں کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ انھیں مذاکرات کی دعوت بھی دے رکھی ہے، اور حالیہ مہینوں میں درجنوں عسکریت پسند ریاست کی عملداری قبول کرتے ہوئے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔
اُدھر اطلاعات کے مطابق پاکستان کی سرحد سے ایران میں داخل ہونے والے پانچ پاکستانیوں سمیت 8 افراد ایرانی سرحد ی فورسز کی فائرنگ میں ہلاک ہو گئے۔
ضلع چاغی کی انتظامیہ کے مطابق ہلاک ہونے والے پانچ افراد کا تعلق اسی ضلع سے ہی ہے اور وہ تمام میٹرک کے طالب علم تھے جن کی عمریں 16 سے 17 تک تھیں اور یہ غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کر گئے تھے۔
حکام کے بقول بلوچ نوجوانوں کی لاشیں وطن واپس لانے کے لیے تہران میں پاکستانی سفارتخانے سے رابطہ بھی کیا گیا ہے۔