رسائی کے لنکس

بلوچستان میں امن و امان کی مخدوش صورتحال


بلوچستان میں امن و امان کی مخدوش صورتحال
بلوچستان میں امن و امان کی مخدوش صورتحال

صوبہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال ان دنوں خاصی مخدوش ہے۔ ایک جانب ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں سیاسی و سماجی شخصیات کو نشانہ بنایا جارہا ہے ، لاشوں کی برآمدگی معمول بن چکی ہے تو دوسری جانب نیٹو سپلائی، سرکاری تنصیبات اور کھیل کے میدان بھی انتہائی غیر محفوظ ہیں۔ صرف جولائی میں دارالحکومت کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر علاقوں میں فائرنگ اور پرتشدد واقعات میں 64 افراد ہلاک ہو گئے۔

جولائی کے مہینے میں تین اہم رہنماؤں اور ایک ادب سے وابستہ شخصیت کو قتل کیا گیا جن میں ممتاز بلوچ رہنما میر عبدالغفار لانگو گڈانی،مسلم لیگ ن کے مقامی رہنما سلیم جدون کو کوئٹہ ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما جمعہ خان رئیسانی کو خضدار اورمستونگ میں وزیر اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کے بھتیجے کو قتل کردیا گیا ۔ اس کے علاوہ تربت سے بلوچی زبان کے شاعر سلیم داد کی مسخ شدہ لاش ملی ہے جنہیں نامعلوم افراد نے قتل سے قبل اغواکرلیا تھا۔

جولائی میں ہی کوئٹہ ، کلی اسماعیل ، تربت ، پسنی، خضدار ، لورالائی اور دشت سے 14 افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں جنہیں اغواء کے بعد تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا ۔ بعض افرادکی لاشیں بوری بند بھی تھیں۔ اس کے علاوہ 19 جولائی کو امریکی امدادی ادارے کے 8 پاکستانی کارکن بھی پشین سے اغوا کیے گئے جن کا تاحال کو سراغ نہیں مل سکا۔

بارکھان ، میاں غنڈی ، مستونگ ، دشت اور پرانا مچھ کے علاقوں میں افغانستان میں نیٹو افواج کو سپلائی پر مامور کنٹینرز پر راکٹ حملوں اور تیل چھڑک کر آگ لگانے کے مختلف واقعات میں پانچ آئل ٹینکر اور کنٹینرجل کرتباہ ہو گئے اور 6 ڈرائیور ہلاک ہو گئے۔

جولائی میں ہی دہشت گردوں کی جانب سے ڈیرہ مراد جمالی ، حق آباد اور جعفرآباد کے مقامات پر ٹرینوں کو اڑانے کے تین بڑے واقعات پیش آئے جن میں متعدد زخمی ہوئے اور ٹرین کی بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں ۔ کوئٹہ ، مستونگ ، قلات ، ڈیرہ اللہ یار و دیگر علاقوں میں فائرنگ اور چھوٹے دھماکوں میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت 40افراد ہلاک ہوئے اور درجنوں زخمی۔

مختلف میڈیا سے حاصل ہونے والے اعدادو شمار کے مطابق رواں سال بلوچستان میں ساڑھے تین برس کے دوران گیارہ سوافراد دہشت گردی کا نشانہ بنے جبکہ دوہزارتین سوسے زائد افرادزخمی ہوئے۔

دو ہزار دس میں تین سو سترہ ، دو ہزار نو میں تین سو 33 اور دو ہزار آٹھ میں تین سو 30 افراد ہلاک ہوئے جن میں سیکورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔

گزشتہ ایک برس سے صوبے کے مختلف علاقوں سے تقریبا ڈیڑھ سو سے زائد مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں ۔ اس کے علاوہ مختلف تنصیبات کو نشانہ بنانا معمول بن چکا ہے اور چند برسوں کے دوران تین سو سے زائد مرتبہ گیس پائپ لائنوں اور دو سو سے زائد بجلی کے ٹاور تباہ کیے گئے۔

XS
SM
MD
LG