رسائی کے لنکس

بنگلہ دیش: قید کی سزا کے خلاف خالدہ ضیا کی عدالت عالیہ سے اپیل


بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا نے منگل کے روز اپنے خلاف بدعنوانی کے جرم پر پانچ برس کی قید کی سزا کے خلاف اپیل داخل کی ہے، جس میں اُن کے قانون دانوں نے استدعا کی ہے کہ فیصلہ سیاسی محرکات پر مبنی ہے اور حکومت کی منشا کو مدِ نظر رکھ کر دیا گیا ہے۔

سزا ہونے کا یہ مطلب ہوا کہ حزب مخالف کی قائد اور موجودہ وزیر اعظم کی سخت ناقد، خالدہ ضیا پر دسمبر میں منعقد ہونے والے قومی انتخابات میں کھڑے ہونے پر ممانعت لاگو ہو سکتی ہے۔

خالدہ ضیا کو 8 فروری کو سزا سنائی گئی؛ جن پر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے یتیموں کے وقف کے چندے کی رقم میں سے 250000 ڈالر خرد برد کرنے کا الزام ہے، جس ادارے کو اُس وقت قائم کیا گیا تھا جب 1991ء میں وہ پہلی بار وزیر اعظم بنیں۔

مقدمے میں ملوث ہونے پر، عدالت نے اُن کے بیٹے طارق الرحمٰن اور دیگر چار افراد کو بھی 10 برس کی سزا سنائی۔

مودود احمد، خالدہ ضیا کے چوٹی کے مشیر اور اُن کے وکیل ہیں۔ منگل کے روز عدالت عالیہ میں مقدمہ دائر کرنے کے بعد، اُنھوں نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ فیصلہ حکام کی مرضی سے سنایا گیا۔ حکومت نے اس الزام کو مسترد کیا ہے۔

بنگلہ دیش کے قانون کے مطابق، دو برس سے زائد مدت تک کی سزا ہونے والا کوئی فرد آئندہ پانچ برس تک کسی حکومتی عہدے کے لیے انتخاب نہیں لڑ سکتا۔

چیف الیکشن کمشنر نے حالیہ دِنوں کہا تھا کہ فیصلہ آنے کے بعد اب خالدہ ضیا الیکشن لڑنے کے لیے نااہل ہوں گی، جب کہ حتمی فیصلے کا اختیار اعلیٰ عدالت کے پاس ہے۔

ضیا کے خلاف 30 سے زائد الزامات لگائے گئے ہیں جن کا تعلق بدعنوانی سے لے کر بغاوت تک سے ہے۔ بنگلہ دیش کی سیاست شدید اختلافات کی شکار ہے۔ جس میں 1991ء سے موجودہ وزیر اعظم حسینہ واجد اور خالدہ ضیا باری باری ملک کی حکمراں بنتی آئی ہیں۔

دونوں خواتین کا تعلق سیاسی خاندانوں سے ہے۔ خالدہ ضیاالرحمٰن کی بیوہ ہیں، جو جنرل سے صدر بنے اور 1981ء میں قتل ہوئے۔ حسینہ شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی ہیں، جو ملک کے پہلے صدر بنے اور اُنھیں 1975ء میں قتل کیا گیا۔

سنہ 2014 کے گذشتہ انتخابات میں خالدہ ضیا کی پارٹی اور سیاسی اتحادیوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا، جس کے نتیجے میں حسینہ کو واضح برتری ملی اور وہ اقتدار میں آئیں۔

XS
SM
MD
LG