|
نئی دہلی _ بنگلہ دیش کے لاپتا رکنِ پارلیمان انوار العظیم کے بھارت میں قتل سے متعلق مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں اور تفتیشی اہلکاروں نے مقتول کی لاش کے ٹکڑے کرنے والے شخص کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔
بنگلہ دیش کی حکمراں جماعت عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے رکنِ پارلیمنٹ انوار العظیم علاج کی غرض سے بھارت آئے تھے جو 15 مئی سے لاپتا تھے۔ بعدازاں بنگلہ دیش کی حکومت اور بھارتی پولیس نے انوار العظیم کے قتل کی تصدیق کی تھی۔
بھارت اور بنگلہ دیش پولیس کی مشترکہ تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ انوار العظیم کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاش کے ٹکڑے کر کے انہیں ہلدی پاؤڈر میں مکس کیا گیا تاکہ شناخت ممکن نہ ہو اور پھر لاش کے ٹکڑوں کو شہر کے مختلف علاقوں میں پھینک دیا گیا۔
پولیس کے مطابق قتل میں ایک قصاب کی خدمات حاصل کی گئیں جسے ممبئی سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
کلکتہ میں کرمنل انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) نے جمعرات کی شام بتایا کہ گرفتار قصاب کی شناخت جہاد حوالدار کے نام سے ہوئی ہے جو بنگلہ دیش کا غیر قانونی تارکِ وطن اور بنگلہ دیش کے برک پور کا رہائشی ہے۔
سی آئی ڈی اہلکار کے مطابق جہاد حوالدار دو ماہ قبل کلکتہ آیا تھا اور اس نے اخترالزماں شاہین کے حکم پر چار افراد کے ساتھ راجرہاٹ کے فلیٹ میں انوار العظیم کو قتل کیا تھا۔
دوسری جانب ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس کی ڈٹیکٹیو برانچ کے سربراہ محمد ہارون الرشید نے دعویٰ کیا ہے کہ انوار العظیم کے قتل میں بزنس مین اختر الزماں شاہین ملوث ہیں جو امریکہ میں مقیم ہیں۔
ایک سینئر پولیس اہل کار نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ جس فلیٹ میں انوار العظیم کا قتل ہوا وہ اختر الزماں نے کرائے پر لیا تھا اور انوار العظیم کا قتل منظم انداز میں کیا جانے والا قتل ہے۔
اہلکار کے مطابق انوار العظیم اور اختر الزماں پرانے دوست تھے اور دونوں کے درمیان کاروبار کے سلسلے میں کوئی تنازع تھا۔
دہلی کے نشریاتی ادارے ’نیوز 18‘ نے ذرائع کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مشتبہ شخص کو اختر الزماں دو ماہ قبل کلکتہ لائے تھے اور وہی اس واقعے کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔
رپورٹس کے مطابق قتل کی تحقیقات کے دوران کئی مشتبہ افراد کے نام سامنے آئے ہیں۔
سی آئی ڈی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سید امان اللہ نامی ایک شخص نے اس قتل میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جب کہ اختر الزماں کے ایک مبینہ ساتھی شیلانتی رحمان اور فیصل علی بھی قتل میں ملوث ہیں۔
انوار العظیم کے قتل میں بنگلہ دیش پولیس نے جن تین افراد کو گرفتار کیا ہے ان میں شیلانتی رحمان بھی شامل ہیں۔
سی آئی ڈی اہلکار نے نیوز 18 کو بتایا کہ 13 مئی کو قتل کے بعد رحمان اور امان اللہ نے فلیٹ چھوڑ دیا تھا لیکن فیصل وہ آخری شخص تھے جو 18 مئی کو اپارٹمنٹ سے نکلے تھے۔
'انوار العظیم کے قتل پر کوئی گفتگو نہیں ہو رہی'
سی آئی ڈی اہل کاروں نے اس کیب ڈرائیور سے بھی تفتیش کی ہے جس نے انوار العظیم کو بڑا نگر میں واقع ان کے دوست گوپال بسواس کے گھر سے لے کر مذکورہ اپارٹمنٹ میں چھوڑا تھا۔
کلکتہ کے بعض ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ بنگلہ دیش کے سیاسی رہنما کے مبینہ وحشت ناک قتل کے سلسلے میں شہر میں کوئی گفتگو نہیں ہو رہی۔ البتہ نیو ٹاؤن علاقے کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں اتنا بڑا واقعہ ہو گیا اور انہیں خبر تک نہیں ہوئی۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ چوں کہ بنگال میں بھی کچھ حلقوں میں 25 مئی کو ووٹ ڈالے جائیں گے، ممکن ہے کہ اس کی وجہ سے بھی اس پر کوئی گفتگو نہ ہو رہی ہو۔
بھارتی حکومت یا مغربی بنگال کی حکومت نے بھی بنگلہ دیشی رہنما کے قتل پر کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
بنگال کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کے مطابق حکمراں جماعت بی جے پی ہر ایسے معاملے میں بنگال کی ممتا بینرجی کی حکومت پر نظم و نسق کی خرابی کا الزام لگاتی ہے لیکن شاید دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار اور دوستانہ تعلقات کی وجہ سے ریاستی حکومت نے بھی تاحال کوئی بیان نہیں دیا۔
قابل ذکر ہے کہ بنگلہ دیش کی پولیس نے بھی کہا ہے کہ انوار العظیم کے قتل میں کوئی بھارتی شہری ملوث نہیں۔ اس معاملے میں جتنے بھی لوگ شامل ہیں سب کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے۔
فورم