|
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ شیخ حسینہ والے واقعے کے بعد لگ رہا ہے کہ پاکستان میں بھی کچھ بڑا ہونے والا ہے۔
اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ خدشہ ہے کہ شیخ حسینہ کی طرح نواز اور زرداری بھی ملک سے جا سکتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ میرا مطالبہ ہے کہ نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری اور محسن نقوی کا نام ای سی ایل پر ڈالا جائے۔ میرا نام اس لیے ای سی ایل پر ڈالا جائے کہ میں جیل سے باہر بھی آ جاؤں تب بھی ملک سے باہر نہ جا سکوں۔
خیال رہے کہ پیر کو بنگلہ دیش میں ملک گیر احتجاج اور فوجی مداخلت کے نتیجے میں شیخ حسینہ مستعفی ہو کر بھارت چلی گئی تھیں۔
نو مئی کے واقعات پر مشروط معافی کا اعلان
سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ نو مئی کی سی سی ٹی وی فوٹیجز سامنے لائی جائیں اور اگر ان فوٹیجز میں پی ٹی آئی کا ایک بھی کارکن نظر آیا تو معافی مانگ لوں گا۔
اڈیالہ جیل راولپنڈی میں 190 ملین پاؤنڈ کیس کی سماعت کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ آئی ایس پی آر نے کہا ہم نو مئی پر معافی نہیں دیں گے تو ہم بھی معاف نہیں کریں گے۔
عمران خان کی اس گفتگو کی تصدیق وہاں موجود دو صحافیوں سے کی گئی ہے۔ اڈیالہ جیل میں بین الاقوامی میڈیا سے تعلق رکھنے والے کسی صحافی کو داخلے کی اجازت نہیں ہے اور صرف مقامی میڈیا کے چند افراد کو اجازت دی جاتی ہے۔
عمران خان نے نو مئی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ "ظلم ہمارے ساتھ ہوا، ہمارے 10 ہزار لوگوں کو جیل میں ڈالا گیا، ہمیں الیکشن نہیں لڑنے دیا گیا ہمارے پارٹی پر پابندی لگائی گئی، ہم سانحہ 9 مئی کے متاثرہ ہیں ہم انصاف چاہتے ہیں۔"
عمران خان نے کہا کہ ہم نے چیف جسٹس سے بھی کہا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ ہماری 25 مئی کی پٹیشن کو نہیں سنا گیا۔ مجھے رینجرز کی جانب سے اغوا کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے کہا یہ غیر قانونی ہے۔ لیکن مجھے اور میرے وکلا کو مارا گیا ہمیں گھسیٹ کر لے کر گئے۔
سابق وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ کیا صرف آئی ایس پی آر کی عزت ہے اور کسی کی عزت نہیں ہے؟ پاکستان اور عالمی سطح پر مقبول ترین شخص کی کوئی عزت نہیں، میرے اغوا پر مجھ سے معافی مانگی جائے۔
سابق وزیرِ اعظم کے بقول نو مئی کی فوٹیجز سامنے لائی جائیں، سی سی ٹی وی فوٹیج میں پی ٹی آئی کا ایک بھی کارکن آیا تو معافی مانگوں گا۔
عمران خان بولے کہ "سانحہ 9 مئی میرا کوئی کارکن ہوا تو اس کو پارٹی سے نکال دوں گا۔ فوٹیج سے ہمارا جرم ثابت ہوا تو معافی مانگوں گا۔ پاکستان کا آئین ہمیں اجازت دیتا ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ اور جی ایچ کیو کے سامنے پرامن احتجاج کریں۔"
نو مئی کو پرتشدد واقعات کے بارے میں ایک صحافی نے سوال کیا کہ نو مئی کے واقعات میں پی ٹی آئی کے لوگوں کو دیکھا گیا ہے جس پر عمران خان نے کہا کہ اسی لیے کہہ رہا ہوں سی سی ٹی وی فوٹیجز نکالیں اور دیکھیں اس میں کون لوگ ہیں۔
'زمان پارک میں ہمارے لوگوں نے پیٹرول بم استعمال کیے'
ایک صحافی نے کہا کہ نو مئی کے دن آپ کے لوگوں کے ہاتھوں میں پیٹرول بم دیکھے گئے۔ اس پر عمران خان نے تسلیم کیا اور کہا کہ پیٹرول بم ہم نے زمان پاک لاہور میں استعمال کیے تھے اور کہیں نہیں۔
اس پر صحافی نے کہا کہ بہت ساری فوٹیجز موجود ہیں کہ پی ٹی آئی راولپنڈی کے کچھ مقامی تنظیمی عہدیداران پیٹرول بم حساس عمارتوں پر پھینک رہے تھے۔ اس پر عمران خان نے کہا کہ اگر کوئی تنظیمی عہدے دار حساس عمارتوں پر پیٹرول بند پھینکنے میں ملوث ہے تو اسے کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔
نو مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والی ہنگامہ آرائی میں پاکستان فوج کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔
پاکستان کی فوج نے اس ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کا پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں پر عائد کیا جاتا ہے تاہم عمران خان اس سے انکار کرتے ہیں۔
ان کا بار بار کہنا ہے کہ اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیجز سامنے لائی جائیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ عمران خان نے اس واقعے کے حوالے سے مشروط معافی مانگنے کی بات کی ہے۔ اس سے قبل عمران خان فوج سے معافی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
'آئی ایس پی آر کے اعمال کی وجہ سے عوام ان کے خلاف ہو چکی ہے'
پاکستان فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر پر تنقید کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ یہ ایک قومی ادارہ ہے اور اس کی حفاظت ہماری ذمے داری ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ آئی ایس پی آر کے اعمال سے عوام ان کے خلاف ہو چکی ہے۔ آئی ایس پی آر اپنے اعمال دیکھیں۔ عوام ایک طرف ہے اور یہ دوسری طرف کھڑے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کی فوج عمران خان کے اس نوعیت کے بیانات کو رد کرتی رہی ہے۔ افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ عوام کی اکثریت فوج پر اعتماد کرتی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ "فوج بات نہیں کرنا چاہتی تو نہ کرے۔ میں بھی نہیں کروں گا، ہم ملک میں انتشار نہیں چاہتے، میں ملک کی خاطر بات کرنے کو تیار ہوں۔ 8 فروری کو کال اس لیے نہیں دی کیوں کہ عوام کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا۔"
فورم