بنگلہ دیش میں حکومت مخالف ہڑتال جمعرات کو دوسرے روز بھی جاری ہے جس میں حزب مخالف کے ارکان اس آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج کررہے ہیں جو ان کے بقول حکومت کو اقتدار میں رہنے کے لیے غیر منصفانہ طور پر مدد دے گی۔
ملک بھر میں تعلیمی ادارے اور کاروباری سرگرمیاں جمعرات کو بھی بند ہیں اور ہڑتال سے ذرائع آمدو رفت بھی متاثر ہورہے ہیں۔
ایک روز قبل پولیس نے کہا تھا کہ 21مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے جس کے بعد دارالحکومت ڈھاکا میں 12ہزار سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔
بدھ کو ملک کے مختلف حصوں میں سکیورٹی اہلکاروں اور مظاہرین میں ہونے والی جھڑپوں میں کم ازکم بیس افراد زخمی ہوگئے تھے۔ حزب مخالف کی ایک بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے سینئر لیڈر زین العابدین فاروقی کو سر پر چوٹ آنے سے ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ پولیس نے بی این پی کے متعدد کارکنوں کو گرفتار بھی کیا ہے۔
وزیرداخلہ سہارا خاتون نے خبردار کیا ہے کہ حکومت نظم وضبط کو برقراررکھنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گی۔
بی این پی اور اس کی اتحادی بشمول اسلامی گروپ جماعت اسلامی گزشتہ ماہ پارلیمان سے منظور ہونے والی اس آئینی ترمیم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں جس سے وہ نظام ختم ہوجائے گا جس کے تحت انتخابات بنگلہ دیش میں ایک غیر جانبدارا نگران حکومت کی موجودگی میں کرائے جاتے ہیں۔
وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی حکمران جماعت عوامی لیگ کے قانون سازوں نے تیس جون کو اس ترمیم کو منظور کرلیا تھا جب کہ بی این پی نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
ملک کی عدالت عظمیٰ پہلے ہی اپنے فیصلے میں تین ماہ کی عبوری حکومت کی زیر نگرانی انتخابات کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔
مقبول ترین
1