اسلام آباد میں پاکستان بار کونسل کا اہم اجلاس ہوا جس میں ججز کے خلاف دائر ریفرنس پر تفصیلی گفتگو کے بعد وزیر قانون اور اٹارنی جنرل سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل کے وائس چئیرمین امجد شاہ نے کہا کہ ہمیں سپریم جوڈیشل کونسل پر اعتماد ہے لیکن ایک کمزور ریفرنس کیلئے حکومت جس طرح ڈٹ گئی ہے اس سے ہمیں خوف ہے کہ اس میں کچھ اور معاملہ بھی ہے اور جسٹس فائز عیسیٰ کو ہٹانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ تمام وکلا متفق ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف دائر ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہیں۔ کراچی بار نے اٹارنی جنرل اور وزیر قانون کے خلاف قرارداد کی تائید کی اور وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کی ممبرشپ منسوخ کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔
امجد شاہ نے کہا کہ احتجاج سوچ سمجھ کر کریں گے اور جذبات میں نہیں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمام اداروں کو اپنے دائرہ کار میں رہنا چاہئیے اور جو دائرے سے باہر نکلے گا بار کونسل آگے کھڑی ہو گی۔ امجد شاہ کا کہنا تھا کہ وکلا کا احتجاج ملک کی بقا اور اداروں کی مضبوطی کیلئے ہے اور ان کا اجتجاج قانون کے دائرے میں ہو گا۔
ان ریفرنسز کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے صدر عارف علوی کو لکھے گئے دو خطوط کی وجہ سے حکومتی ترجمان بہت محتاط نظر آ رہے ہیں اور ان ریفرنسز سے متعلق گفتگو سے اجتناب کر رہے ہیں۔ تاہم مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے میڈیا ٹاک میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ عدلیہ کے ساتھ تصادم نہیں ہے اور وکلا کو سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا انتظار کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ ہی عدلیہ کے خلاف ایک شکایت کا جائزہ لے رہی ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی 14 جون کو بھرپور اجتجاج کا اعلان کر رکھا ہے۔ بار کے صدر امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ اس ریفرنس میں حکومتی بدنیتی ایسے عیاں ہوتی ہے کہ اس ریفرنس کو ابھی تک پبلک نہیں کیا گیا جبکہ مندرجات لیک کیے جا رہے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ہونے والے اس ریفرنس کی وجہ سے عدلیہ کے بعض افراد دوبارہ تحریک چلانے کی مخالفت بھی کر رہے ہیں اور پاکستان بار کونسل کے اجلاس میں بعض اہم عہدیدار اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ تاہم پاکستان بار کونسل کا کہنا ہے کہ ان ریفرنسز پر حکومت کے خلاف سخت اجتجاج کیا جائے گا۔