پاکستان نے دو سال کے وقفے کے بعد بے نامی ٹرانزیکشن سے متعلق قوانین نافذ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جنوری 2017 میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون مختلف وجوہات کی بنا پر اب تک نافذ نہیں ہو سکا تھا۔
قانونی ماہرین بے نامی ٹرانزیکشن پروہیبیٹیشن ایکٹ کے نفاذ کو ایک بڑی پیش رفت قرار دیا ہے۔
بے نامی اکاؤنٹس یا جائیدادوں سے کیا مراد ہے؟
عام طور پر بے نامی اکاؤنٹس یا جائیداد کا مقصد کسی شخص کا شناخت صیغہ راز میں رکھ کر دوسرے شخص کے نام پر اکاؤنٹ یا جائیداد رکھنا ہے جس کا فائدہ پہلے شخص کو ہی حاصل ہوتا رہتا ہے۔
عام طور پر بااثر اور دولت مند افراد اپنی جائیدادیں یا اکاؤنٹس اپنے نوکروں، ان کے بچوں یا پھر کسی ایسے افراد کے ناموں پر رکھتے ہیں جو ان کے زیر اثر ہو اور اس کا فائدہ مسلسل وہ خود اٹھاتے رہیں۔ اس کا بڑا مقصد عموماً ٹیکس بچانا ہوتا ہے۔
یہ قانون ان منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادوں، بینک اکاؤنٹس اور اثاثوں کے خلاف بنایا گیا ہے جو عام طور پر حکومت کی نظروں سے چھپنے یا ٹیکس بچانے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ لیکن اس کا ایک اور مقصد غیر قانونی طور پر ہتھیائی گئی دولت کرپشن اور بھتے وغیرہ کی رقوم کو چھپانا ہے۔
حکام کے مطابق اس قانون کا مقصد حکومتی محصولات میں اضافہ کرنے سے زیادہ کرپشن کی رقوم کو چھپانے کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ یہ عمل معیشت کو دستاویزی بنانے کے راستے میں ایک سنگ میل عبور کرنے کے مترادف ہے۔
قانون پر معاشی ماہرین کی رائے کیا ہے؟
معاشی ماہرین ملک میں بے نامی اکاوٹنس اور جائیدادوں روک تھام میں اس قانون کی اہمیت اور نفاذ کو سراہتے نظر آتے ہیں۔ لیکن کا کہنا ہے کہ پاکستانی معیشت کو دستاویزی بنانے میں ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے اور بے نامی اکاؤنٹس یا جائیدادیں بنانے سے روکنا اس عمل کی صرف ایک کڑی ہے۔
ماہر معاشیات اور عالمی بینک کے سابق افسر شاہد حسن صدیقی نے حکومت کی جانب سے بے نامی ٹرانزیکشن روکنے کے قانون کے نفاذ کو خوش آئند قرار دیا ہے لیکن ان کے مطابق معیشت کو دستاویزی شکل میں بنانے کی جانب یہ صرف ایک حصہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کا بمشکل 20 فیصد حصہ ہی دستاویزی شکل میں ہے اور اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ طاقتور طبقے ہیں جو نہیں چاہتے کہ ان کی دولت کی اصل حیثیت ظاہر ہو۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے مطابق کئی ہزار ارب روپے کی رشوت، بھتہ اور دیگر غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی دولت جائیدادوں کی خرید و فروخت میں لگی ہوئی ہے۔ اگر یہ کالا دھن ختم کر دیا جائے تو ملک کی ٹیکس کلیکشن چار ہزار ارب سے بڑھ کر باآسانی نو ہزار ارب تک پہنچ سکتی ہے۔
ان کے مطابق اس سلسلے میں ایف بی آر کی اصلاح کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں خامیوں کے باعث آٹھ ماہ میں محصولات کا شارٹ فال 235 ارب تک جا پہنچا ہے جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے بھی معیشت میں اصلاحات لانے اور کالے دھن کو روکنے کے لئے دباؤ کا سامنا ہے۔ اور یہ معیشت کو دستاویزی شکل دینے کی جانب ہی پیش رفت کا حصہ ہے۔
قانون کا اطلاق کیسے ہو گا؟
اس قانون کے تحت فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو منقولہ اور غیر منقولہ بے نامی جائیدادوں اور اکاؤنٹس رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کا اختیار مل گیا ہے۔
ایسے افراد جن کی بے نامی جائیدادیں یا اکاؤنٹس موجود ہیں، انہیں پہلے مرحلے میں نوٹسز جاری کئے جائیں گے۔ تسلی بخش جواب نہ ملنے پر کمشنر ان لینڈ ریونیو کو قانونی کارروائی کے بعد ایسی جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس کو ضبط کرنے کا اختیار ہو گا اور ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے فوجداری قوانین کے تحت بھی کارروائی کی جا سکے گی۔
اس ضمن میں اپیلوں کی سماعت کے لئے وفاقی ایپلٹ ٹریبونل بھی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ بے نامی اکاؤنٹس یا جائیدادوں کی نشاندہی کے لیے بھاری انعامات بھی مقرر کیے گئے ہیں۔
20 لاکھ روپے سے کم کی جائیداد یا اکاؤنٹس کے نشاندہی کرنے والے کو 5 فیصد 50 لاکھ تک کی نشاندہی کرنے والے کو 4 فیصد اور اس سے اوپر کی بے نامی جائیدادوں کی نشاندہی پر تین 3 کے مساوی انعام دیا جائے گا۔