پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے عدالتی فیصلے کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کےبارے میں ایک سوال پر سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی نے کہا ہے کہ کیونکہ یہ کیس داخل ہو چکا ہے اور عدالت نے اِسے سماعت کے لیے منظورکرکے سماعت کا آغاز کردیا ہے، لہٰذا، اِس پر کوئی رائے زنی نہیں کی جاسکتی ۔
جسٹس (ر) صدیقی نے یہ بات جمعرات کے روز’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’اِن دِی نیوز‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ یہ معاملہ ایڈوائزری جرسڈکشن (مشاورتی دائرہ اختیار) کا ہے۔’ یہ پبلک اہمیت کا معاملہ ہے یا نہیں، اِس پرعدالت کیا رائےدیتی ہے، اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔‘
اُنھوں نے کہا کہ جہاں تک ریفرنس کا تعلق ہے، صدرِ پاکستان کو آئینی اختیار حاصل ہے کہ وہ شق 168کے تحت عدالتِ عظمیٰ سے کسی بھی قانونی مسئلے پر، جو پبلک اہمیت کا حامل ہو، رائےمعلوم کر سکتے ہیں۔ اورکسی بھی ریفرنس کی حیثیت مشورے کی سی ہوتی ہے، عدالت کوئی فیصلہ سازی نہیں کرتی۔ لیکن یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ وہ کیا فیصلہ صادر کرتی ہے۔
یہ معلوم کرنے پر کہ کیا سپریم کورٹ 25سال پرانے کیس کو کالعدم قرار دے سکتی ہے، اُنھوں نے کہا کہ اِس بات کا دارومدار اِس بات پر ہےکہ ’کیا پوائنٹس اٹھائے گئے ہیں‘ اور ’یہ سپریم کورٹ پر منحصر ہے کہ وہ کیا رائے دیتی ہے۔ ‘
اِس ضمن میں اُنھوں نے 1954ء کے ’تمیزالدین کیس‘ اور 1958ء کے’ ڈوسو کیس‘ کا حوالہ دیا اور بتایا کہ دونوں ہی بھٹو کیس کی طرح متنازعہ تھے۔ پھر جب1972ء میں عاصمہ جیلانی کیس کا فیصلہ آیا تو یہ دونوں کیس عدالتِ عظمیٰ کے سامنے پیش ہوئے۔ عدالت نے اِن دونوں کیسز کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اُس وقت کی سپریم کورٹ نے اِن کیسز کا صحیح فیصلہ نہیں کیا تھا۔ اُنھوں نے یاد دلایا کہ جب سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ سامنے آیا اُس وقت پہلے والےتمام جج موجود تھے۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے: