چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ کے سامنے سابق وفاقی وزیرقانون بابر اعون نے جمعرا ت کو حکومت کی طرف سے پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دینے کے عدالتی فیصلے کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس پر دلائل کا آغا ز کیا۔
عدالت میں مقدمے کی سماعت کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں بابراعون نے کہا کہ صدارتی ریفرنس دائر کرنے کا مقصد کسی کو سزا دلوانا نہیں بلکہ تاریخ کے ریکارڈ کو درست کر ناہے۔”میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو اس عدالتی قتل کے کردارآج زندہ ہیں ، اُن کے لیے اس سے بڑی سزا کوئی نہیں ہوسکتی کہ اُن کو ، اُن کے منہ پہ اُن کی زندگی میں یہ پتہ لگ جائے کہ اُنھوں نے عدالتی قتل کیا تھا ہم اس سے زیادہ کسی سزا میں دلچسپی نہیں رکھتے“۔
پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 32 سال قبل 1979 ء میں اُس وقت کے فوجی آمرجنرل ضیا الحق کے دورحکومت میں عدالتی فیصلے کے بعد پھانسی دی گئی تھی۔ لیکن اس عدالتی فیصلے پردانشور حلقوں ، سول سوسائٹی اور جمہوری قوتوں کی طرف سے آج تک تنقید کی جاتی رہی ہے اور پیپلز پارٹی اس کو ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل قرار دیتی ہے ۔
اس تناظر میں آئین کی شق 186 کے تحت صدر آصف علی زرداری نے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دینے کے عدالتی فیصلے کے خلاف ایک ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کر رکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عدالت اُس وقت کے فیصلے پر اپنی رائے دے تاکہ پاکستانی عدلیہ پر لگے سیاہ داغ کو مٹایا جا سکے ۔
حزب مخالف کی جماعتیں حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ اس مقدمے پر عدالت عظمیٰ کی رائے جاننے کی بجائے پیپلز پارٹی کو
2007 ء میں قتل ہونے والی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل میں تحقیقات کو منظر عام پر لانا چاہیئے۔ ناقدین کا الزا م ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنی خراب انتظامی کارکردگی سے توجہ ہٹانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے لیکن حکمران جماعت اس کی تردید کرتی ہے ۔
لیکن بعض سینیئر وکلا اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اس مقدمے میں عدالت عظمیٰ کی رائے اہمیت کی حامل ہے۔ سینئیر وکیل حفیظ پیززادہ بھی جمعرات کومقدمے کی سماعت کے دوران عدالت میں موجود تھے جس کے بعد اُنھوں نے میڈیاسے گفتگو میں کہا کہ ”اب آج کے حالات میں جو قانون ہے اس ملک میں اور جو شواہد آئے تھے اس کے تحت بھٹو صاحب کو موت کی سزایا پھانسی کی سزا دی جاسکتی تھی یا نہیں دی جاسکتی تھی یہ ہے مرکزی سوال“۔
مقدمے کی آئندہ سماعت اب 18 اپریل کو ہوگی اور حفیظ پیر زادہ سمیت کئی دیگر وکلا کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ آگے چل کر شاید ایک بڑا بنچ تشکیل دے کر اس مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچائے۔