|
امریکہ کے صدر جو بائیڈن پیر کو اپنی قومی سلامتی ٹیم کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی پر بات چیت اور اردن کے شاہ عبداللہ دوم سے ملاقات کریں گے۔
ادھر اسرائیلی رہنماؤں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران یا خطے میں اس کے پراکسیوں کی طرف سے حملہ کیا گیا تو انہیں "بھاری قیمت" ادا کرنا پڑے گی۔
گزشتہ ہفتے ایرا ن میں حماس کے مقتول رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد مشرق وسطی میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ایران کے مطابق اسماعیل ہنیہ کو کم فاصلے سے مار کرنے والے میزائل سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایران نے اسرائیل پر اس قتل کا الزام لگایا ہے۔
اس واقعے کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے شہریوں کو لبنان چھوڑنے کی ہدایت کی ہے۔
غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان گزشتہ سال اکتوبر سے جاری جنگ سے پہلے ہی تناؤ موجود ہے۔
امریکہ اور اردن کے درمیان تازہ ترین مذاکرات، اردن کے وزیرِ خارجہ ایمن صفادی کے ایران کے دورے کے ایک دن بعد ہو رہے ہیں۔
ایران میں صفادی نے کشیدگی کو ختم کرنے اور خطے کو "امن، سلامتی اور استحکام" میں رہنے پر زور دیا تھا۔
امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اتوار کو اپنے اسرائیلی ہم منصب یوو گیلنٹ کے ساتھ بات کی تھی۔
آسٹن نے اسرائیل کی سلامتی اور ایران اور لبنان میں مقیم حزب اللہ اور یمن میں حوثیوں جیسے ایرانی پراکسی گروپوں کے جانب سے خطرات کے خلاف اسرائیلی دفاع کے حق کے لیے امریکی حمایت کا اعادہ کیا تھا۔
ایک بیان میں امریکی وزارتِ دفاع نے کہا کہ دونوں وزرائے دفاع نے امریکی فورس کے اپنی افواج کی حفاظت کے لیے کیے گئے اقدامات پر تبادلۂ خیال کیا۔
انہوں نے اسرائیل کے دفاع کی حمایت اور خطے میں وسیع تر کشیدگی کو روکنے اور کم کرنے پر بات کی۔
پینٹاگان کے مطابق امریکہ ایک طیارہ بردار بحری جہاز اور اپنے مزید فضائی اثاثے خطے میں منتقل کر رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے نائب مشیر جوناتھن فائنر نے نشریاتی ادارے 'سی بی ایس' کو بتایا کہ امریکہ کا مقصد تناؤ میں کمی، ڈیٹرنس اور اسرائیل کا دفاع ہے۔
فائنر نے 'اے بی سی' چینل کے شو دس ویک کو بتایا کہ "ہم ہر امکان کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ ہم نہیں سمجھتے کہ علاقے میں جنگ کسی کے مفاد میں ہے۔"
فورم