چین نے پیر کو صدر جو بائیڈن کے اس بیان پر تنقید کی کہ بیجنگ کی طرف سے تائیوان پر امریکہ سے کیے گئے وعدوں کے برخلاف ہونے والے حملے کی کوشش کی صورت میں امریکی افواج تائیوان کا دفاع کریں گی۔ تاہم بیجنگ نے امریکی صدر کے بیان کے بعد جوابی کارروائی کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔
سی بی ایس نیوز چینل کے پروگرام "60 منیٹس" میں اتوار کو نشر کیے گئے ایک انٹرویو میں جب بائیڈن سے پوچھا گیا کہ کیا امریکی افواج، امریکی مرد اور عورتیں، چینی حملے کی صورت میں تائیوان کا دفاع کریں گی، تو انہوں نےجواب میں کہا "ہاں" ۔
صدر بائیڈن کا بیان ’مین لینڈ‘ چائنہ کی تائیوان کے خلاف بڑھتے ہوئے طاقت کے اظہار کے پیش نظر امریکہ کی جزیرے کے لیے مزید امریکی حمایت کا عکاس ہے۔
خیال رہے کہ چینی سرزمین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی تائیوان کے ملک کا حصہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔
بیجنگ میں صدر بائیڈن کا نام لیے بغیر، وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ"امریکی تبصرے" تائیوان کی باضابطہ آزادی کی حمایت نہ کرنے کے واشنگٹن کے عزم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔اور بیجنگ اس بارے میں کہہ چکا ہے کہ ایسا قدم جنگ کا باعث بنے گا۔
وزات خانہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے کہا کہ چین اس(بیان) کی سختی سے مذمت کرتا ہے اور اسے مسترد کرتا ہے ۔ ترجمان نے کہا کہ بیجنگ نے امریکہ سے اس معاملے پر شدید شکایت کی ہے۔
سی بی ایس نیوز کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس نے انٹرویو کے بعد کہا کہ امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ امریکی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن تائیوان کی حیثیت کو پرامن طور پر حل ہوتے دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن مذکورہ پالیسی یہ نہیں بتاتی کہ آیا چینی حملے کے جواب میں امریکی افواج بھیجی جا سکتی ہیں۔
امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی سمیت سیاسی شخصیات کے تائپے کے دوروں کے بعد چین کے صدر شی جن پنگ کی حکومت کی طرف سےنے تائیوان کے قریبی سمندر میں میزائل داغنے اورجزیرے کی طرف لڑاکا طیارے اڑانے کی کوششوں کے بعد اس مسئلے پر تناؤ بڑھ رہا ہے۔
چینی وزارت کے ترجمان ماؤ نے امریکی بیان کے ردعمل میں واشنگٹن سے مطالبہ کیا کہ وہ تائیوان سے متعلقہ مسائل سے سمجھداری سے نمٹے اور تائیوان کی آزادی کے حامیوں کو "کوئی غلط اشارے نہ بھیجے" تاکہ چین-امریکہ تعلقات اور آبنائے تائیوان میں امن و استحکام کو مزید نقصان سے بچا جا سکے۔"
تائیوان اور چین 1949 میں خانہ جنگی کے بعد الگ ہو گئے تھے اور اس کا خاتمہ کمیونسٹ پارٹی کے سرزمین پر کنٹرول کے ساتھ ہوا تھا۔ بیجنگ اور تائپے ،دونوں حکومتوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک ملک ہیں لیکن تنازعہ اس بات پر ہے کہ ان میں سے قومی لیڈر ہونے کا حقدار کون ہے۔
چینی ترجمان نے کہا: "ہم انتہائی خلوص کے ساتھ پرامن اتحاد کے امکانات کے لیے اپنی بھر پور کوشش کریں گے، جبکہ ہم چین کو تقسیم کرنے کے لیے کسی بھی سرگرمی کو برداشت نہیں کریں گے اور ہم تمام ضروری اقدامات اٹھانے کا اختیار محفوظ رکھیں گے"۔
دوسری طرف تائیوان کی وزارتِ خارجہ نے بائیڈن کا مخلصانہ شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے تائیوان کے لیے امریکی حکومت کی طرف سے تحفظ کے ٹھوس وعدے کا اظہار کیا۔
بیان میں تائیوان نے کہا کہ وہ "آمرانہ توسیع اور جارحیت کے خلاف مزاحمت" کرے گا اور علاقائی استحکام کے تحفظ کے لیے واشنگٹن اور دیگر ہم خیال حکومتوں کے ساتھ "قریبی سیکیورٹی شراکت داری کو مزید گہرا کرے گا"۔
یاد رہے کہ امریکہ کا وفاقی قانون واشنگٹن کو پابند کرتا ہے کہ تائیوان کے پاس اپنے دفاع کے ذرائع موجود ہوں۔ لیکن یہ قانون یہ نہیں واضح کرتا کہ آیا امریکی افواج اس مقصد کے لیے بھیجی جائیں گی۔ واشنگٹن کے تائیوان کے ساتھ کوئی رسمی تعلقات قائم نہیں ہیں۔ تاہم امریکہ نے تائیوان کے ساتھ غیر رسمی سفارتی تعلقات برقرار رکھے ہیں۔