ویب ڈیسک۔روس کے صدر ولاڈی میر پوٹن نے کہا کہ ان کے ملک نے یوکرین میں اپنی فوجی کارروائیوں میں کچھ کھویا نہیں ہے بلکہ روس کے اقتدار اعلی کو اور مضبوط کیا ہے۔
پوٹن کا یہ بیان ایسےوقت میں سامنے آیا ہے جب وہ چین کے ہم منصب کے ساتھ ملاقات کرنے جا رہے ہیں۔
ایک روسی عہدیدار نے بدھ کے روز بتایا کہ صدر پوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ آئندہ ہفتے ازبکستان میں ملنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔یہ سربراہ ملاقات جس کا اعلان کیا گیا ہے ان دو طاقتوں کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی کی جانب ایک اور قدم کی علامت ہو سکتی ہے جس کی مغرب کی جانب سے مخالفت بڑھتی جا رہی ہے۔
روسی اور چینی رہنماوں کی ملاقات شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن کے اجلاس کے دوران متوقع ہے جو کہ ایک سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی فورم ہے۔ اس فورم پر چین اور روس کا غلبہ ہے اور اس کا اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو ر ہا ہے جو کہ دونوں ہی لیڈروں کے کے لئے اہم ہے۔
پوٹن یوکرین میں اپنی جنگ کے اقتصادی اور سیاسی نتائج بھگت رہے ہیں۔ جس کے سبب روس دنیا میں زیادہ تنہا ہو گیا ہے۔ جبکہ شی کو ایسے میں سست پڑتی ہوئی معیشت کا سامنا ہے جب کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر کی حیثیت سے وہ تیسری پانچ سالہ مدت کے حصول کےلئے کوشاں ہیں۔ توقع یہی ہے کہ وہ یہ مدت بھی حاصل کر لیں گے۔جس سے ماضٰی کی روایت ٹوٹ جائے گی۔ اور دونوں رہنماؤں نے مشاہدہ کیا ہے کہ ان کے ملکوں کے مغرب سے تعلقات بگڑتے جا رہے ہیں۔
چین میں روسی سفیر آندرےڈینی سوو نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ دونوں رہنما پندرہ اور سولہ ستمبر کو ازبکستان کے شہر سمرقند میں ہونے والی آرگنائیزیشن کی سربراہ میٹنگ میں ملیں گے۔ اور روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی طاس نے سفیر ڈینی سوو کا یہ بیان نقل کیا کہ ہم سرگرمی سے اس کے لئے تیاریاں کر رہے ہیں۔نیوز ایجنسی اے پی کا کہنا ہے کہ ترجمان چینی وزارت خارجہ ماؤ ننگ نے اس دورے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انکے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔
ماسکو اور بیجنگ نے ایشیاء۔ یوروپ اور اس سے آگے اعتدال پسند جمہوری قوتوں کی مخالفت کے لئے اپنی خارجہ پالیسیوں میں بڑھتی ہوئی ہم آہنگی پیدا کی ہے۔ اور ایسی مطلق العنان حکمرانی کے لئے راہیں ہموار کی ہیں جہاں سخت سرحدی کنٹرول ہو۔ آزادی اظہار اقلیتوں کے حقوق یا اپوزیشن کی سیاست کے لئے کوئی خاص احترام نہ پایا جاتا ہو۔
ماہرین کے مطابق ہو سکتا ہے کہ دونوں ہی رہنما اس میٹنگ کے سبب اپنے اپنے ملک میں اپنی حیثیتوں کو بڑھاوا دینے کی امید بھی کر رہے ہوں۔ پوٹن کے لئے یہ ایک موقع ہے کہ وہ دکھائیں کہ اب بھی ان کے طاقتور اتحادی ہیں۔ اور ہو سکتا ہے کہ شی کے لئے یہ دکھانے کا ایک موقع ہو کہ کہ وہ یوکرین کی جنگ کی مغرب کی جانب سے مخالفت کے سامنے ایسے میں ڈٹ کر کھڑے ہو سکتے ہیں جب ٹریڈ، ٹیکنالوجی اور حقوق انسانی کے مسائل پر اور تائیوان پر اس کے حملے کی دھمکیوں کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔
ہر چند کے ماضی میں ماسکو اور بیجنگ کوئی فوجی اتحاد بنانے کے امکان کو مسترد کر چکے ہیں۔ لیکن پوٹن نے کہا ہے کہ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ روس چین کے ساتھ انتہائی حساس فوجی ٹیکنالوجیز شئیر کر رہا ہے جس سے اسے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے میں قابل ذکر مدد ملی ہے۔
دریں اثناء بدھ کے روز روسی صدر ولاڈی میر پوٹن نے کہا کہ انکے ملک نے یوکرین میں اپنی فوجی کارروائیوں میں کچھ کھویا نہیں ہے بلکہ روس کے اقتدار اعلی کو اور مضبوط کیا ہے۔
اکنامک فورم میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ روس کی تمام کارروائیوں کا مقصد ڈونباس کے لوگوں کی مدد کرنا ہے۔
اور پوٹن نے کہا کہ اس سے آخر کار ہمارا ملک اندر سے اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے مضبوطی کی طرف جائے گا۔
روس نے فروری کے اواخر میں یوکرین پر حملہ کیا اور دار الحکومت کیف کی پیش قدمی کو ترک کرکے یوکرین کے مشرق میں ڈونباس کے خطے پر اپنی فوجی کارروائیوں کو مرکوز کیا جہاں روس کے حامی دو ہزار چودہ سے یوکرینی افواج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔