واشنگٹن میں تائیوان کی سفیر کا کردار ادا کرنے والی شیاؤ بی کھم نے منگل کے روز درجنوں بین الاقوامی قانون سازوں کی میزبانی کی جو تائیوان کے خلاف جارحیت کے سبب چین پر پابندیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ تائپے کے لیے حمایت کا یہ اظہار ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب بیجنگ اس پر فوجی دباؤ بڑھا رہا ہے۔
یورپ، ایشیا اور افریقہ سے آنے والے ساٹھ قانون سازوں کا یہ غیر اعلانیہ اجتماع تائیوان کی واشنگٹن میں موجود سفارتی مینشن میں ہوا جسے ’ ٹوئن اوکس‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ تائپے کی جانب سے ساتھی جمہوریتوں کی چین کے خلاف حمایت حاصل کرنے کی یہ تازہ ترین کوشش ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد چین بھی تائیوان کے جزیرے کو بزور طاقت حاصل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق انٹر پارلیمنٹری الائنس آن چائنہ (IPAC) اس ہفتے جب واشنگٹن میں جمع ہے جب وہ متوقع طور پر ایک عہدنامے پر دستخط کرنے جا رہا ہے اور جس کے تحت وہ اپنی اپنی حکومتوں پرزور دیں گے کہ وہ چین کی طرف سے تائیوان کے خلاف فوجی یا کسی قسم کے جارحانہ اقدام کے خلاف عظیم تر مزاحمت کا راستہ اختیار کریں گی۔
’’ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مہم چلائیں گے کہ ہماری حکومتیں پیپلز ری پبلک آف چائنہ کو متنبہ کر دیں کہ تائیوان کے خلاف اس کی فوجی جارحیت کی بیجنگ کو سخت قیمت چکانا پڑے گی۔ فوجی کشیدگی کا مقابلہ کرنے اور تائیوان کے ساتھ تجارت اور دیگر تبادلوں کو جاری رکھنے کے لیے بامعنی پابندیوں سمیت معاشی اور سیاسی اقدامات کیے جائیں گے۔‘‘
ڈرافٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تائیوان کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کا تعین بیجنگ نے نہیں کرنا اور یہ کہ قانون سازوں کے باہمی دوروں میں اضافے کی بھی کوشش کی جائے گی۔
چین کے صدر شی جن پنگ اس عزم کا اعادہ کر چکے ہیں کہ جمہوری بندوبست میں چلنے والے تائیوان کو بیجنگ کے کنٹرول میں لایا جائے گا اور انہوں نے اس ضمن میں طاقت کے استعمال کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا ہے۔ وہ آئندہ ماہ چین کی کمیونسٹ پارٹی میں اپنی تیسری مدت کے حصول کے لیے تیار ہیں۔ تائیوان کی حکومت چین کے اقتدار اعلی کے دعوؤں کو پر زور انداز میں مسترد کرتی ہے۔
اس معاملے سے باخبر ذرائع نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ امریکہ چین کے خلاف پابندیوں پر غور کر رہا ہے تاکہ اسے تائیوان پر حملے سے روکا جا سکے۔ ٹائپے کی جانب سے یورپی یونین پر بھی دباؤ ہے کہ وہ بھی چین کے خلاف امریکہ کی طرز کے اقدامات کرے۔
رائٹرز نے تائیوان کے ڈی فیکٹو سفیر کے مہمان قانون سازوں کی جو فہرست دیکھی ہے ان میں برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، بھارت، لتھووینیا، یوکرین، نیوزی لینڈ اور نیدرلینڈ کے قانون ساز شامل ہیں جن سے خطاب کرتے ہوئے شیاؤ نے کہا کہ ایک ڈرانے دھمکانے والے کو یہ دکھانا ضروری ہے کہ ہمارے دوست بھی ہیں۔
’’ہم ڈرانے دھمکانے والے کو اشتعال نہیں دلا رہے، لیکن ہم ان کے دباؤ کے آگے سر نہیں جھکائیں گے‘‘
انہوں نے اس تقریب میں یوکرین کے دو نمائندوں کی شرکت کی بھی تعریف کی۔
انٹر پارلیمنٹری الائنس آن چائنہ (IPAC) متوقع طور پر بدھ کو اپنے عزم پر دستخط کر رہا ہے جس میں ملکوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ چین سے اپنی سپلائی لائن سے متعلق یقینی بنائیں کے سامان چین کے سنکیانگ علاقے میں جبری مشقت سےتو تیار نہیں کروایا گیا اور ہانگ کانگ میں طاقت کا غلط استعمال کرنے والے چینی عہدیداروں اور ان چینی کمپنیوں پر پابندی کا مطالبہ کریں جو چین کی عسکری صنعت کے مدد کرتی ہیں۔
واشنگٹن میں چین کے سفارتخانے نے اس حوالے سے رائٹرز کی درخواست کے باوجود اپنا ردعمل نہیں دیا ہے۔
امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چئیرمین باب مینڈیز، جو ری پبلکن راہنما مارکو روبیو کے ساتھ انٹر پارلیمنٹری الائنس آن چائنہ (IPAC) کے شریک چئرمین بھی ہیں، نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ تائیوان کی مدد کے لیے تیار بل میں اس ہفتے پہلے سے طے جائزے میں کچھ تبدیلیاں لائی جائیں گی۔
ابتدائی بل تائیوان پر چین کی جارحیت کی صورت میں بیجنگ پر سخت پابندیوں کا متقاضی ہے۔ اور ایسی صورت میں تائیوان کو آئندہ برسوں میں اربوں ڈالر کے غیر ملکی فوجی وسائل فراہم کرتا ہے۔