امریکی انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے منگل کو بتایا کہ صدر جو بائیڈن امریکی فوجیوں کے افغانستان سے نکلنے کی 31 اگست کی آخری تاریخ پر قائم رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس سے قبل، بائیڈن اور جی سیون گروپ کے رہنماؤں نے افغانستان کی صورت حال پر بات چیت کے لیے ورچوئل کانفرنس میں شرکت کی۔ کئی رہنماؤں نے ان پر انخلا کے عمل کو آسان بنانے کے لیے 31 اگست کی حتمی تاریخ آگے بڑھانے پر زور دیا۔
طالبان ڈیڈ لائن میں توسیع کو مسترد کر چکے ہیں۔
ورچوئل کانفرنس سے قبل برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا تھا، "میں اپنے دوستوں اور اتحادیوں سے کہوں گا کہ وہ افغان عوام کے ساتھ کھڑے ہوں اور مہاجرین اور انسانی امداد کے لیے آگے بڑھیں۔"
انخلا کے لیے 31 اگست کی حتمی تاریخ میں اب ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے، اور مغربی ملکوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں شہری اور افغانستان میں امریکہ کی مدد کرنے والے افغان باشندے اس توقع پر کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ جا رہے ہیں، تاکہ انہیں باحفاظت ملک سے نکالا جا سکے۔
وائٹ ہاؤس نے منگل کی صبح بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 21،600 افراد کو کابل سے نکال لیا گیا ہے، لیکن ملک چھوڑنے کے خواہش مند ہزاروں اب بھی وہاں موجود ہیں۔
بہت سے افغان شہریوں کا کہنا ہے کہ ہوائی اڈے کے راستے میں طالبان کی چوکیوں سے نکلنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے؛ جب کہ طالبان عہدیدار امریکہ کو مزید وقت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ 31 اگست کی ڈیڈ لائن کو 'ریڈ لائن' قرار دے رہے ہیں۔
امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں کو بتایا، "ہم طالبان کے ساتھ سیاسی اور سیکیورٹی چینلز کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر بات چیت کر رہے ہیں"۔
امریکی حکام نے بتایا کہ سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈائریکٹر ولیم برنس نے پیر کو کابل میں طالبان کے اعلیٰ سیاسی رہنما عبدالغنی برادر سے ملاقات کی۔
سلیوان نے انخلا سے متعلق وائٹ ہاؤس کی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ صدر بائیڈن اپنے عزم پر قائم ہیں اور ہم افغانستان سے لوگوں کو باہر نکالنے کی تعداد کے لحاظ سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
دوسری جانب کئی امریکی قانون سازوں نے، جن میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹس دونوں ہی شامل ہیں، متعدد سابق فوجی عہدے داروں اور کچھ امریکی اتحادیوں نے بھی 15 اگست کو طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے بعد سے افراتفری کے عالم میں انخلا کے عمل پر نکتہ چینی کی ہے۔
ری پبلیکن سینیٹر مائیک راؤنڈ نے پیر کے روز کہا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کو افغانستان میں پھنسے ہوئے امریکیوں کے محفوظ انخلا کو اپنی اولین ترجیح بنانا چاہیے۔
لیکن ابتدا میں انخلا کی سست رفتاری کے بعد، لوگوں کو افغانستان سے باہر نکالنے کی کوششوں میں نمایاں تیزی آئی ہے۔ کچھ فوجی عہدیداروں نے پیر کو اس توقع کا اظہار کیا کہ وہ انخلا کی موجودہ تیز رفتار برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں گے۔
امریکہ کے ٹرانسپورٹیشن کمانڈ کے کمانڈر جنرل اسٹیفن لیونز نے پینٹاگان میں نامہ نگاروں کو پیر کے روز بتایا کہ، "میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب تک مشن مکمل نہیں ہوتا ہم آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔"
پیر ہی کو ایک علیحدہ بریفنگ میں، پینٹاگان کے پریس سیکرٹری جان کربی نے کہا کہ انخلا کی رفتار میں اضافے کے باوجود، "ہم کسی چیز کو نظر انداز نہیں کر رہے۔"
انہوں نے کہا، "انخلا کی تکمیل کے راستے میں کئی عوامل ہیں، جن میں ان کے لیے عارضی قیام گاہوں کا بندوبست شامل ہے، جہاں ان کی امیگریشن کا پراسس اور سکریننگ مکمل ہو سکے۔
تاہم، امریکی حکام انخلا کی تیز ہوتی رفتار کے باوجود یہ انتباہ کر رہے ہیں کہ تمام لوگوں کو افغانستان سے نکالنے کے لیے مزید وقت کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ڈیموکریٹک کانگریس مین ایڈم شیف نے صحافیوں کو بتایا کہ انخلا اس مہینے کے آخر تک مکمل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، "مجھے یہ ممکن لگتا ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان امریکیوں کی تعداد کے پیش نظر یہ بہت کم ہے جنہیں اب بھی نکالنے کی ضرورت ہے۔"
محکمہ خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ 31 اگست کی آخری تاریخ سے مراد صرف "افغانستان سے فوجی نکالنا" ہے۔
عہدیدار نے مزید کہا، "خطرے کا سامنا کرنے والے افغان باشندوں کے لیے ہمارا عزم 31 اگست کو ختم نہیں ہو گا۔"